رہبر ملت سدا خود کو تھکاتے رہ گئے
جزبہ ء ایثار ہر دم وہ دکھاتے رہ گئے
راست کردار و عقیدے کو سجاتے رہ گئے
جھیل کر غم ان گنت وہ مسکراتے رہ گئے
کرتے ہیں جو قوم کی خاطر فنا سب کچھ یہاں
رتبہ ء عالی جہاں میں پھر وہ پاتے رہ گئے
بغض و نفرت سے نہ یاری کو نبھا پائیں کبھی
شعبدہ بازی سے بھی دوری بناتے رہ گئے
عدل پرور کا یہی شیوہ زمانے میں رہا
منصفانہ فیصلے نافذ کراتے رہ گئے
دعوے حیلے ہر طرف ہیں عصر حاضر میں فقط
"رہ گئے عشق دریا سے یہ ناطے رہ گئے"
مال ودولت کے خزانے پاس ناصؔر ہیں مگر
اپنی سرتابی کے باعث تلملاتے رہ گئے

0
13