دشواریاں ہوں لاکھ پلٹنا نہ خواب سے
ہر حال احتیاط ہو، موج سراب سے
اندیشوں کا ازالہ ہوا ہے خطاب سے
"دل مطمئن ضرور ہے تیرے جواب سے"
خلوت میں رہتے کھوئے سے، جلوت میں ہیں بجھے
تقصیر کیا ہوئی ہے مکرم جناب سے
چلتی جہاں میں علم کی ہر وقت سلطنت
مضبوط جوڑے رشتے مگر ہم کتاب سے
پرخار ڈالی، تیز ہوا، دھوپ کی تپش
گردش میں رہ کے سیکھے ہنسی کو گلاب سے
ہر سو چلی ہے گونج گرانی کی آجکل
مصرف ہر ایک چیز میں کرنا حساب سے
خورشید و ماہتاب کی ناصؔر ہے اک صدا
ارض و سما ہو جائے ضیا پاش تاب سے

0
6