| اپنا وقار عظمت و عزت گنوا چکے |
| یعنی گناہ کی ہیں سزا اپنے پاچکے |
| اب تو بچے ہوئے ہیں فقط معتبر ہی لوگ |
| وہ جو منافقین تھے لشکر سے جا چکے |
| ہم کو ڈرا رہے ہو میاں خوف مرگ سے |
| ہم کشتیاں ہیں پہلے ہی اپنی جلا چکے |
| یہ الگ بات کہ تکرار نہیں کر سکتے |
| جھوٹ کو سچ تو میرے یار نہیں کر سکتے |
| کر تو سکتے ہیں میاں قتل وہ سچائی کو |
| ہاں مگر ایسا لگاتار نہیں کر سکتے |
| کیسے کر سکتے ہیں وہ لوگ حمایت اپنی |
| اپنا لہجہ بھی جو تلوار نہیں کر سکتے |
| سرپرستی کی بات کرتے ہو |
| ہم سے ہستی کی بات کرتے ہو |
| میں حدیث نبی سناتا ہوں |
| آپ مفتی کی بات کرتے ہو |
| تم نے تو حوصلہ بڑھانا تھا |
| تم بھی پستی کی بات کرتے ہو |
| نام ازہر ہے نام کیا ہوگا |
| اس کہانی میں کام کیا ہوگا |
| مٹی مٹی ہے اور مٹی کا |
| ہم سے اعلیٰ مقام کیا ہوگا |
| جس کو خطرہ ہو جان جانے کا |
| کچھ بھی کھا لے حرام کیا ہوگا |
| ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے |
| بھائی صاحب کی کہانی بھی سند ہوتی ہے |
| عقل اور عشق میں اک معرکہ آرائی ہے |
| دل سے الجھی ہوئی ہر لمحہ خرد ہوتی ہے |
| ہے یہ فطرت کا تقاضا یہی قانون قدیم |
| بات جب دل سے نکلتی ہے اثر ہوتی ہے |
| الجھا ہوں کچھ ایسا کہ رہا ہو نہیں سکتا |
| میں اب تری یادوں سے جدا ہو نہیں سکتا |
| ہے پھول اسے بھیجا پسند اسکی ہے یارو |
| ورنہ یہ گلاب اور بھی کیا ہو نہیں سکتا |
| دنیا کی ہر اک لا کے خوشی قدموں میں رکھ دو |
| ما ں باپ کا حق پھربھی ادا ہو نہیں سکتا |