| کچھ تو ہے ان دنوں ہر شام نکل آتے ہیں |
| موسمِ گل میں تو گلفام نکل آتے ہیں |
| وہ بھی اب ملنے ملانے کو کہاں آتے ہیں |
| یوں کہو ہم سے انھیں کام نکل آتے ہیں |
| قتل ہوتا ہے ہمارا ہی ہمیں ہیں مجرم |
| سر ہمارے ہی سب الزام نکل آتے ہیں |
| آپ کا حکم ہے پھر جان کی بازی کیا ہے |
| جو بھی ہو جائے اب انجام نکل آتے ہیں |
| مسکرانے کی ضرورت ہے سبھی لوگوں کو |
| ہم تو بس دے کے یہ پیغام نکل آتے ہیں |
| سوچنے بیٹھیں جو ازہر وہ پرانی باتیں |
| پھر وہی دکھ وہی آلام نکل آتے ہیں |
معلومات