| یہ خواب خواب ہی ان کا رہے مرے مولا |
| جو چاہتے ہیں نکالیں گے ہم کو یاں سے کبھی |
| یہ مسجدیں یہ منارے پکارتے ہیں ہمیں |
| ہمیں کو وقت نہیں ہوٹل و دکاں سے کبھی |
| نہیں بچے گی کہانی یہ لائق تحسین |
| ہمیں نکال کے دیکھو تو داستاں سے کبھی |
| سوال یہ ہے مساوات کیوں نہیں کرتا |
| سوال مل کے کرو میر کارواں سے کبھی |
| یہ راستے در و دیوار سب مہکتے ہیں |
| وہ ایک شخص گزرتا ہے جب بھی یاں سے کبھی |
| ہو فائدہ کہ خسارہ نہیں رہی پرواہ |
| زبان دے دی تو پلٹے نہیں زباں سے کبھی |
| یہ مر بھی جائیں تو ذہنوں میں زندہ رہتے ہیں |
| عظیم لوگ گزرتے نہیں جہاں سے کبھی |
معلومات