دل بینا طلب کیا جائے
یہ خزینہ طلب کیا جائے
رات غزلیں سنائیں گے ہم لوگ
جام و مینا طلب کیا جائے
وہ جو اسلاف کا ہے نقش قدم
وہ قرینہ طلب کیا جائے
پار کر لیں گے تیر کر در یا
کیا سفینہ طلب کیا جائے
سن لے مولا دعاۓ ازہر بھی
اب مدینہ طلب کیا جائے

0
21