| اشکوں کا کاروبار بھلایا نہیں گیا |
| آنسو مگر نگاہ میں لایا نہیں گیا |
| آ تو گیا تھا بام پے وہ خوش نگاہ بھی |
| لیکن نقاب رخ سے ہٹایا نہیں گیا |
| تم نے بھی انقلاب کی حامی نہیں بھری |
| ہم سے بھی زور تنہا لگایا نہیں گیا |
| آقا نے خود بتایا ہے اپنی زبان سے |
| اتنا کسی نبی کو ستایا نہیں گیا |
| ہے کون جس کو موت نے گھیرا نہیں میاں |
| مٹی میں کس کو یار ملایا نہیں گیا |
| ہمکو کلام پاک کی تعلیم دی گئی |
| مفہوم تو ذرا بھی بتایا نہیں گیا |
معلومات