بس محبت ہی مری جان نبھاتے دیکھا
اس کو جب بھی کسی کردار میں آتے دیکھا
شکل و صورت کو لباسوں کو سنوارے دنیا
کب ہے کردار کو آنکھوں نے سنورتے دیکھا
جس نے دنیا کو مقدم رکھا ہم نے اس کو
وقت رخصت کف افسوس ہی ملتے دیکھا 
زندگی جس سے سنورتی وہ کتاب روشن
آخری وقت میں سرہانے ہی پڑھتے دیکھا
وقت تو وقت ہے بدلے گا یہ رفتہ رفتہ
ہم نے لوگوں کو ہے پل بھر میں بدلتے دیکھا
وہ بھی کہتے ہیں بہادر ہمیں تسلیم کرو
ہر کہانی میں جنہیں ہم نے ہے ڈرتے دیکھا
یہ پرندوں کا ہی بس کام ہوا کرتا ہے
ہجرتیں ہم نے درختوں کو نہ کرتے دیکھا
جس کو بے فیض سمجھتا تھا زمانہ ازہر
شمس ڈوبا تو اسی دیپ کو جلتے دیکھا

0
14