| اس کو یقین جانو حقیقت پتہ نہیں |
| بالکل ہی ناسمجھ ہے جو سمجھے خدا نہیں |
| محسوس کر تو سکتے ہیں پھر بھی مرے عزیز |
| دکھتی نہیں ہے آنکھ سے تو کیا ہوا نہیں |
| خامی پہ اپنی ناز ہے تم کو اسی لیے |
| دل کا تمہارے صاف ابھی آئینہ نہیں |
| مجھ کو سزا ملے گی ہوں سرکار کے خلاف |
| جو دیش کے خلاف ہے اس کو سزا نہیں |
| اس پر ہے ذمہ داری کا اک بوجھ اس لیے |
| وہ تھک گیا ہے پھر بھی ہے کہتا تھکا نہیں |
| یاں فیصلے تو ہوتے ہیں لیکن مرے عزیز |
| انصاف جس کو کہتے ہیں اس کا پتہ نہیں |
| بہتر وہی ہے راہ جو اس نے دکھائی ہے |
| اس کے سوا ہمارا کوئی رہنما نہیں |
معلومات