| دُکھاۓ دل کوئی محبوب جانی چو ٹ دےجاۓ |
| اگر ایسا نہ کر پا ۓکھلونا ساتھ لے جاۓ |
| پھر اس کو توڑ کر دیکھے اسی کا نام نکلے گا |
| ہمارے دل سے اس کا بھی کوئی تو کام نکلے گا |
| بہت تلخی بھرے انداز میں جس نے کھری کھوٹی سنائی تھی |
| ہمارے دل پے اس نے ضرب اک کاری لگائی تھی |
| ذرا سی بات باتوں میں پلٹ کر آ گئی تھی |
| نمی دریا کی آنکھوں میں سمٹ کر آ گئی تھی |
| ہمارا دل کسی وحشت کی جانب بڑھ رہا تھا |
| وہ جیسے ڈر کے مارے کوئی کلمہ پڑھ رہا تھا |
| یکایک آخرش وہ پوچھ بیٹھا خیریت ہے |
| جو دل کو لگ گئی ہو بات میری معذرت ہے |
| لبوں سے کچھ نہیں نکلا فقط خاموش آندھی تھی |
| یہی وہ دوست تھا جس سے بڑی امید باندھی تھی |
| ہمارا دوست ہے وہ ہم علی ا لاعلان کہتے تھے |
| محبت تھی بہت اس سے سو اس کو جان کہتے تھے |
| وہ آۓ دن ملاقاتیں میسر اب نہیں ہوتیں |
| مہینوں فون پر باتیں بھی اکثر اب نہیں ہوتیں |
| وجہ کچھ بھی نہیں شاید وجہ کچھ ہو بھی سکتی ہے |
| کہیں ہم مل بھی سکتے ہیں دعا کچھ ہو بھی سکتی ہے |
| کوئی دریا ہمارے درمیاں میں ہے ابھی شاید |
| کناروں کی طرح ہم مل نہیں سکتے ابھی شاید |
| مگر امید باقی ہے وفاؤں پر بھروسہ ہے |
| کہ جیسے عام لوگوں کو سیاسی رہنماؤں پر بھروسہ ہے |
معلومات