| یہ بھی ممکن ہے وہ انکار بھی کر سکتا ہے |
| کیا ضروری ہے کہ ہر بار بھی کر سکتا ہے |
| کیا ضروری ہے کہ ہو ترک تعلق اس سے |
| یار تو یار ہے تکرار بھی کر سکتا ہے |
| آج میٹھی ہے زباں اس کی مگر کل شاید |
| اپنے لہجے کو وہ تلوار بھی کر سکتا ہے |
| جان لے لے گا منافق تری دھوکے سے مگر |
| تیرا دشمن تجھے ہوشیار بھی کر سکتا ہے |
| نہیں افواہ کو پھیلانا بھی آسان مگر |
| کام یہ چھوٹا سا اخبار بھی کر سکتا ہے |
| روزہ رکھا تھا مگربھول کے کھایا اس نے |
| ہاں اجازت ہے وہ افطار بھی کر سکتا ہے |
| بات جب ہے کہ ہوں اعمال بھی اچھے ازہر |
| اچھی باتیں تو گنہگار بھی کر سکتا ہے |
معلومات