| فضائے دہر میں اب بھی، ندائے کُن سے گونجیں ہیں
|
| جہاں آگے ستاروں سے، ورا یہ، اِن سے گونجیں ہیں
|
| نہاں کتنے جہاں رب کے جو ہستی اور دیکھے گی
|
| بتائیں گے کبھی وہ بھی وہاں پر کِن سے گونجیں ہیں
|
| جہانِ دو سریٰ اندر، چھپے کتنے خزانے ہیں
|
| وہ ذاتِ مصؐطفائی ہے، چلی یہ جن سے گونجیں ہیں
|
|
|