تو مصطفیٰ ہے آقا نادار میں گدا ہوں
الطاف تیرے شاہا میں تجھ سے مانگتا ہوں
ہستی کے دشت میں تھا اک ذرہ ریگ سے کم
تیری نظر سے ہادی میں کیمیا بنا ہوں
نورِ جمال اپنا اس آنکھ کو دکھانا
یہ عاجزی سے عرضی شاہا میں کر رہا ہوں
دلبر حبیب سرور حسرت ہے میرے دل میں
اس در پہ پھر بلا ئیں میں آل کا گدا ہوں
باراں کرم کے بھیجیں آئے گھٹائے رحمت
شعلے فراق کے ہیں مغلوب ہو گیا ہوں
صد ہا درود رب کے تیرے وجود پر ہوں
غلطی ہے شیوہ میرا کرتا سدا خطا ہوں
سرکار میرے ہادی کب دید ہے ضُحیٰ کی
اس باغِ زندگی کا بجھتا ہوا دیا ہوں
میرے نبی اے سرور کب آؤں گا میں در پر
فرقت کے بحرِ غم میں غوطے لگا رہا ہوں
محمود میرے دل میں یہ بھی قلق ہے باقی
میں دور طیبہ سے بکھرا ہوا رہا ہوں

0
5