ہیں اشکِ ہجراں میرے داماں ہوا جو نم ہے
کچھ کربِ کربلا سے رنج و ملال غم ہے
دھڑکن دلوں میں ہے جو اُن کے فراق سے ہے
دستور دیتے ہیں وہ، ہر فکر جس سے کم ہے
لمحات دوریوں کے آلودہ کرب سے ہیں
ہجر و فراق جاناں دیتا گراں الم ہے
بے حد درود اُن پر مولا سے آ رہے ہیں
آباد نوریوں سے جن کا حسیں حرم ہے
کب خرد کی پہنچ ہے شانِ حبیبِ رب تک
کچھ سوج بھوج اس کی یزداں سے ہی کرم ہے
یادِ نبی اے مومن تریاق ہے دلوں کی
سرکار کے ذکر سے رنج و الم عدم ہے
محمود مصطفیٰ سے آمانِ دو جہاں ہے
معدوم ذکرِ جاناں کرتا دلوں سے غم ہے

0
2