| گر ذکرِ مصطفیٰ سے ہے، وابستگی ملی |
| یہ جانیں چشمِ دل کو پھر، اک روشنی ملی |
| روشن ضمیرِ دو جہاں، یادِ نبی سے ہے |
| چندہ کو حسنِ مصطفیٰ سے، چاندنی ملی |
| اُس شہرِ کی جو حسرتیں، اس من میں سوز ہیں |
| شاید اسی لئے ہمیں یہ زندگی ملی |
| شکرِ خدا کہ مصطفیٰ، آقا کریم ہیں |
| جن کے درِ کریم سے ہے، رہبری ملی |
| بے شک بلائے جاتے ہیں، زائر مدینے میں |
| بندے وہ خوب تر ہیں، جنہیں حاضری ملی |
| آئی پون ہے یوں یہاں، باغِ حبیب سے |
| ڈالی امید کی ہمیں، پھولی پھلی ملی |
| محمود! فیض اُن کے ہیں، بے حد و بے حساب |
| ملی جو خیر ہر جگہ، اُن سے چلی ملی |
معلومات