جب وہ عرشِ الہ پر گئے
اُدنُ، مولا انہیں پھر کہے
قوسِ قربت نبی سے سجی
عرشِ اعظم یوں سرکار سے
ڈالے سرمہ ہیں ما ذاغ کا
آنکھ حسنِ ازل پر رہے
گزرے لمحے تھے جو وصل میں
عمدہ تحفے انہیں پھر ملے
بھولے امت نہ اُس جا نبی
اُن کو صلے علیٰ رب کہے
ساتھ نوری نبی کے رہے
جب حرم سے وہ اقصیٰ چلے
بھاگ سدرہ کے روشن ہوئے
گام اُن کے یہاں جو لگے
زینہ اول تھا معراج کا
سارے کروبیاں یاں رکے
لوٹے جب تھے نبی مصطفیٰ
سب کو پایا جو تھے خیر سے
چھوڑ ہستی نبی جب گئے
چلنے کونین کے تب تھمے
آئے واپس نبی اس لئے
دورِ نبضِ جہاں پھر چلے
نعتیں اُن کی اے محمود کہہ
مدح جن کی خدا خود کرے

0
1