جلوہ ہو لفظ میں بھی حسنِ قبول کا
پھر ہو مجھے سلیقہ نعتِ رسول کا
نقشِ قدم نبی کا میرا ہو رہنما
سچا وسیلہ جو ہے رب کے حصول کا
مطلوب آگہی گر کون و مکان ہو
جانوں کہ دائرہ ہے مرغِ عقول کا
کر دوں حوالے رب کے دانائی خرد کی
سرمہ لگالوں میں بھی بطحا کی دھول کا
پا جا سراغِ کن درِ مصطفیٰ سے دل
جو راستہ نہیں ہے اک لمبے طول کا
کب عشق نے سنی ہے کچھ بات خرد کی
یہ سامنے ہے قصہ سبطِ بتول کا
محمود آقا تیرے ہیں مصطفیٰ سخی
کب کوئی عذر باقی تیرے ملول کا

2
52
سبحان اللّہ

0
شاعر دعا کرتا ہے کہ اُس کے الفاظ میں بھی نعتِ رسول ﷺ کی مقبولیت کا حسن پیدا ہو۔ وہ چاہتا ہے کہ نبی ﷺ کے قدموں کے نقش اُس کی راہنمائی کریں تاکہ وہ رب تک پہنچنے کا سچا وسیلہ پا سکے۔ شاعر عقل و دانائی کو اللہ کے سپرد کر کے عاجزی اختیار کرنا چاہتا ہے، جیسے بطحا کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنایا جائے۔ دل کو حضور ﷺ کے در سے ’’کن‘‘ (امرِ تخلیق) کا سراغ ملتا ہے، یعنی حقیقتِ کائنات کا علم۔
آخر میں شاعر کہتا ہے کہ عشق، عقل کی بات نہیں سنتا—یہ وہی راستہ ہے جو حضرت فاطمہؓ کے لال، امام حسینؓ کے عشق سے منور ہے۔
آخر میں شاعر (محمود) عرض کرتا ہے کہ جب مصطفیٰ ﷺ سخی ہیں تو اُن کے غلام کے لیے کوئی غم باقی نہیں رہتا۔

0