آقا حبیب سرور مولا کے راز داں ہیں
دلدارِ من کریمی سلطانِ دو جہاں ہیں
کونین ایک نقطہ اُن کے محیط میں ہے
دانائے راز سیدی مختارِ ہر زماں ہیں
رونق وہ مجلسوں کی باغ و ثمر کے مالک
جائیں گے خلد سارے جو اُن کے کارواں ہیں
ممکن ہے اذنِ کُن کو سرکار نے سنا ہو
ہستی کے قافلے سب کس نور سے رواں ہیں
کہتا ہے امرِ قُل وہ سرکار نے جو دیکھا
سن لیں جو حکم آیا دلدار کی اذاں میں
کہنے ہیں مصطفیٰ کے ہوتی وحی مگر ہے
کچھ بھی نہیں ہوا سے سرکار کے بیاں میں
رتبے ملے خدا سے اعلیٰ حبیبِ رب کو
محمود قطرہ ہستی وہ بحرِ بیکراں ہیں

0
4