بعد میں چاہیے نہیں کچھ بھی |
یہ ضرورت نہیں رہے گی پھر |
بعد میں سانس ٹوٹ جائے گی |
وقت کی ریل چھوٹ جائے گی |
بعد میں عمر بیت جائے گی |
بعد میں موت جیت جائے گی |
اک اور سال زندگی کا اب گزر گیا |
میں اس سفر پہ دائمی آنکھوں سے تر گیا |
صحرا نورد میں بنا بس بھوک کے لیے |
یہ پیٹ تو بھرا نہیں پر میرا سر گیا |
اب حال یہ ہے خود کو بھی پہچانتا نہیں |
دیکھا جو آج آئینہ میں خود سے ڈر گیا |
تم یہ کوشش کرو |
خواب مرنے نہ دو |
خواب مر جائیں تو |
وہ پرندہ ہو جو |
اُڑ نہ پائے کبھی |
پر ہوں ٹوٹے سبھی |