| ایسا نہیں کہ زندگی سے ہار مان لوں |
| اتنا ضرور ہے کہ بہت تھک گیا ہوں میں |
| اب تم سمجھ رہے ہو کہ بس تھک گیا ہوں میں |
| تم کو نہیں خبر کہ کہاں تک گیا ہوں میں |
| اس زندگی میں آگ لگانے کا شکریہ |
| میں خام تھا بہت مگر اب پک گیا ہوں میں |
| میں آج وقت کے ہاتھوں سے گرنے والا ہوں |
| میں ٹوٹ پھوٹ کے آخر بکھرنے والا ہوں |
| چھپا کے رکھا مجھے بادلوں نے کیوں دن بھر |
| یہاں پہ شام ہوئی ہے اترنے والا ہوں |
| خزاں رسیدہ درختوں پہ پھوٹنے کی سزا |
| بھری بہار میں شاہدؔ میں جھڑنے والا ہوں |
| بعد میں چاہیے نہیں کچھ بھی |
| یہ ضرورت نہیں رہے گی پھر |
| بعد میں سانس ٹوٹ جائے گی |
| وقت کی ریل چھوٹ جائے گی |
| بعد میں عمر بیت جائے گی |
| بعد میں موت جیت جائے گی |
| تم یہ کوشش کرو |
| خواب مرنے نہ دو |
| خواب مر جائیں تو |
| وہ پرندہ ہو جو |
| اُڑ نہ پائے کبھی |
| پر ہوں ٹوٹے سبھی |