| جنوں میں اب کوئی انکار نہیں چاہتا میں |
| راستے میں کوئی دیوار نہیں چاہتا میں |
| اس نے کرنا ہے تو اب تھوڑے سلیقے سے کرے |
| پیار میں اب دلِ بیزار نہیں چاہتا میں |
| کون کہتا ہے فقط میں نے خوشی ہی مانگی |
| سچ تو یہ ہے گلِ بے خار نہیں چاہتا میں |
| مجھے عزت سے بہت تھوڑے سے لقمے درکار |
| سیم و زر کے کوئی انبار نہیں چاہتا میں |
| منتظر ہیں مرے دشمن مری کمزوری کے |
| راستہ ایک بھی ہموار نہیں چاہتا میں |
| پیار کی ایک نظر چاہیے شاہدؔ مجھ کو |
| اس کے لب سے کوئی اظہار نہیں چاہتا میں |
معلومات