| چین بس لمحۂ ناگوار میں ہے |
| درد جو چاہیے وہ پیار میں ہے |
| ایک پل کا فراق لا محدود |
| وقت کب میرے اختیار میں ہے |
| گِردا گِرد آندھیاں ہیں محوِ رقص |
| چہرہ تو اُس کا اب غبار میں ہے |
| دل ہے بے چین دردِ فرقت کو |
| سکھ کہاں اس پہ اعتبار میں ہے |
| جو سرور اس دفع خزاں میں تھا |
| مزا اتنا کہاں بہار میں ہے |
| شہر مجھ کو نگل گیا شاہدؔ |
| پھر بھی صحرا کیوں انتظار میں ہے |
معلومات