| ہماری آرزو تھی تم ہماری آس تو کرتے |
| ہمارے شغل اپناتے کبھی بن باس تو کرتے |
| سفر میں ساتھ تھے لیکن تعلق سرسری رکھا |
| مری ذہنی اذیت کا ذرا احساس تو کرتے |
| سبھی شکوے گلے بس دل میں رکھے بات تو کرتے |
| دکھاتے درد اپنے اور ذرا وشواس تو کرتے |
| یہی خواہش رہی میری حمایت میں کھڑے ہوتے |
| ہماری بات کا تھوڑا کبھی تم پاس تو کرتے |
| کبھی تو کھل کے کہتے ہاں تمہیں ہم سے محبت ہے |
| ہماری عام سی اس زندگی کو خاص تو کرتے |
معلومات