دل میں آیا ہے کہ اب آگ لگا دی جائے
بے وفا شہر کے لوگوں کو سزا دی جائے
جشن کی رات کو ماتم میں بدلنے کے لیے
زہر اب ان کی شرابوں میں ملا دی جائے
اس کی تصویر جلائی ہے تو دل کہتا ہے
اس کی ہر ایک نشانی بھی جلا دی جائے
وہ یہ کہتا ہے کہ کچھ قرضِ وفا ہے مجھ پر
سونے چاندی سے وہ قیمت بھی چکا دی جائے
اس نے نفرت کے انگاروں میں مجھے جھونکا ہے
اس سے پہلے کہ بجھیں اور ہوا دی جائے
یہ اگر جنگ انا کی ہے تو دن رات چلے
اس سے پہلے کہ میں سو جاؤں صدا دی جائے
لمحہ لمحہ وہ بھی تڑپے گا پتا ہے مجھ کو
لمبی اک عمر کی اب اس کو دعا دی جائے
چند معصوم بچے ہیں تو انہیں اب شاہدؔ
سر چھپانے کی جگہ اور قبا دی جائے

19