یقین پیار میں نہ تھا میں خود سے بھی خفا رہا
میں کچھ نہ کر سکا یہاں نجانے کیوں ڈرا رہا
ٹھہر سکا نہ کوئی یاں پہ آندھیوں کی راہ میں
مگر میں اس کے پاؤں میں زمین پر پڑا رہا
سنا تو تھا انا کی جنگ میں ہارنا ہی ہے لکھا
نجانے کیوں پھر آج تک خودی پہ میں اڑا رہا
بچھڑتے وقت کہہ رہا تھا وقت ہی طبیب ہے
رکا نہیں یہ وقت بھی یہ زخم بھی ہرا رہا
جو گر گیا زمانہ اس کو روند کر نکل گیا
میں چوٹ کھا کے پھر بھی اپنے پاؤں پر کھڑا رہا

15