صدیوں سے اک مقام پہ ہی کیوں کھڑے ہیں لوگ
شاید یہ مر چکے ہیں یا زندہ گڑے ہیں لوگ
سچ سے بہت ہی دور زمانہ نکل گیا
اب کیا کہیں کہ کیوں یہاں آخر لڑے ہیں لوگ
کیسے کہیں کہ دوست تھے سب آستیں کے سانپ
کل ساتھ تھے جو سامنے آ کر کھڑے ہیں لوگ
ذلت بھری یہ زندگی کیوں راس آ گئی
یہ جانتے ہیں جینے پہ پھر بھی اڑے ہیں لوگ
لہجے تھے ان کے نرم جو آ کر چلے گئے
جو رہ گئے زبان کے کتنے کڑے ہیں لوگ
کیسی وبا تھی سوچ کو مفلوج کر گئی
اُن وسوسوں میں آج بھی شاہدؔ پڑے ہیں لوگ
ق
لاکھوں میں ایک تھے ہمیں سمجھا نہیں کوئی
ہیرے سے تھے جو ٹاٹ پہ اب تک جڑے ہیں لوگ
ہم اتنے سخت جان خزاؤں سے لڑ گئے
ہم بادِ نو بہار سے آخر جھڑے ہیں لوگ
جاہل یہاں کی محفلوں کی شان ہوں گئے
مٹی میں ہم پڑے ہوئے ان سے بڑے ہیں لوگ

0
16