| میری نظر میں لعل و گہر سب حقیر ہے |
| جس دل میں پیار ہے وہی سچ میں امیر ہے |
| لوگوں کے اس ہجوم میں تنہا بہت ہوں میں |
| لیکن مرے وجود میں اک جم غفیر ہے |
| واعظ مجھے ڈرا نہیں دوزخ کی آگ سے |
| میرا تو راہبر مرا اپنا ضمیر ہے |
| میں لا مکاں کی وسعتوں میں جی رہا ہوں اب |
| روحانیت کا مٹی میں میرے خمیر ہے |
| یہ سوچ تھی کہ دل کبھی اس پر نہ آئے گا |
| یہ دل فقط اسی کے ہی رخ کا اسیر ہے |
| یہ سچ ہے اس کو منزلوں کی کچھ خبر نہیں |
| پھر بھی ہمارے قافلے کا وہ امیر ہے |
معلومات