| سارے جہاں کا ایک گنہ گار مجھ میں ہے |
| منٹو زدہ سا ایک قلم کار مجھ میں ہے |
| میں اس کو مانتا بھی تو کس طرح مانتا |
| اپنی بھی ذات سے کہیں انکار مجھ میں ہے |
| کوشش کے با وجود بھی ہم اجنبی رہے |
| شاید کہیں چھپی ہوئی دیوار مجھ میں ہے |
| اک خاص حد سے آگے تعلق نہیں بڑھا |
| پُر پیچ سا اک آلۂ معیار مجھ میں ہے |
| میں مطلبی نہیں ہوں پر اتنا ضرور ہے |
| اپنے نشے میں مست یہ سَرشار مجھ میں ہے |
معلومات