نظر میں اب کوئی گلشن نہیں ہے
دریچہ کوئی بھی روشن نہیں ہے
کمی محسوس ہوتی ہے کسی کی
ضرورت ہے مگر فوراً نہیں ہے
بہت سوچا مگر میں آ نہ پایا
تمہیں اب دیکھنے کا من نہیں ہے
تمہیں جب سے نکالا اپنے دل سے
وہاں پر اب کوئی الجھن نہیں ہے
سمجھ آیا مجھے آزاد ہو کے
جہاں میں اس سے بڑھ کر دھن نہیں ہے
نہ میں مجنوں نہ میں فرہاد شاہدؔ
مری آنکھوں میں اب ساون نہیں ہے
ق
اداکاری کی گھٹّی ہو جہاں پر
اداکاری وہاں پر فن نہیں ہے

0
16