اب وہ کہتے ہیں ہم نہیں آتے!
گر بلاتے تو ہم نہیں جاتے؟
خواہشوں کی زمین بنجر تھی
اس میں پھر خواب کیسے اگ پاتے؟
پاؤں میں بیڑیاں تھیں رشتوں کی
اٹھ کے جاتے تو ہم کہاں جاتے؟
وقت کے بوجھ سے دبے ہی رہے
آپ آتے تو بوجھ ہٹ جاتے
حسرتوں کے صلیب کاندھوں پر
ویسے ہی لوگ جھک نہیں جاتے
آپ کے ظلم کی وجہ ہم ہیں
ہم نہ ہوتے تو ظلم کیا ڈھاتے؟
عاجزی سے ہوا یہ ڈر سے نہیں
ہم نہ جھکتے تو وہ جھکا پاتے؟
شہر اندھوں کا تھا یہاں شاہدؔ
کس کو جا کر یہ زخم دکھلاتے؟

0
11