سر پہ سامان بھی نہیں ہوتا
سفر آسان بھی نہیں ہوتا
گھر میں گھمسان روز پڑتا ہے
جنگ کا میدان بھی نہیں ہوتا
بے دھڑک جھوٹ بول دیتا ہے
اب پشیمان بھی نہیں ہوتا
اتنے دھوکے ہوئے ہیں میرے ساتھ
اب میں حیران بھی نہیں ہوتا
جس کے دل میں خدا نہ بستا ہو
وہ تو انسان بھی نہیں ہوتا
ایسی آفت دبوچ لیتی ہے
جس کا امکان بھی نہیں ہوتا
کیوں کیا عشق دلگی کرتے
جس کا نقصان بھی نہیں ہوتا

0
10