| عقل کے ناخن ذرا لے اور من مانی نہ کر |
| اب سبا آزاد ہے اب تُو سلیمانی نہ کر |
| تنکا تنکا جوڑ کر تعمیر یہ بستی ہوئی |
| روک دے ان بارشوں کو یوں فراوانی نہ کر |
| تو چلا جائے گا تو خاموشیاں رہ جائیں گی |
| جتنا رک سکتا ہے رک جا گھر میں ویرانی نہ کر |
| ہم تو سیلانی ہیں ہم پر وصل کی بارش نہ کر |
| تو زلیخا ہے تو اس یوسف کو زندانی نہ کر |
| درد دینے کے لیے خود درد سہنا بھی تو ہے |
| کام یہ آساں نہیں اپنا لہو پانی نہ کر |
| کاسۂ زخمِ طلب ہے دیکھ تو حاتم نہ بن |
| کچھ بچا لے کل کی خاطر درد ارزانی نہ کر |
| ق |
| کیسی یہ اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے |
| بیرکوں کو لوٹ جا ایسی نگہبانی نہ کر |
معلومات