| جو جل رہا تھا آخری دیا اسے بجھا گیا |
| وہ گھرسے جاتے جاتے در کو قفل بھی لگا گیا |
| بہت گھنے سے پیڑ کے تنے پہ اس کا نام تھا |
| وہ اس شجر کی ٹہنیوں کو آگ ہی لگا گیا |
| فلک سے تارا ایک بھی میں توڑ کے نہ لا سکا |
| مروتوں کا بوجھ اُس کا ، سر مرا جھکا گیا |
| کہا تھا اس سے اب اکیلے زندگی گذار لیں |
| جدا ہوا تو آنسوؤں کا زہر وہ پلا گیا |
| قبا جنوں کی ہم پہن کے راستے پہ چل پڑے |
| مگر وہ آندھیاں چلیں جنون ہی چلا گیا |
| تباہ اس طرح کبھی یہ زندگی لگی نہ تھی |
| مجھے یہ لگ رہا ہے زندگی سے اب خدا گیا |
معلومات