| ہنستی آنکھوں میں خونِ جگر بھر لیا ہنستے ہونٹوں کو اشکوں سے تر کر لیا |
| غم ہمیں چھو کے گزرا نہیں تھا کبھی عشق میں ڈوب کر سر بسر کر لیا |
| بے مزہ زندگی کا سفر جب لگا راستے کو بہت پر خطر کر لیا |
| گھر کی مایوسیوں سے جو نالاں ہوئے میکدے کو ہی پھر اپنا گھر کر لیا |
| ہم ترستے رہے پر ملی ناں کبھی ان کی جانب سے کوئی بھی اچھی خبر |
| کان میں ٹھونس لیں انگلیاں اور پھر خود کو ہم نے یہاں بے خبر کر لیا |
| درد اتنا تھا اک پل بھی رکتا نہ تھا زخم گہرے تھے خود سے وہ بھرتے نہ تھے |
| ایک جھٹکے میں بس کاٹ کر یہ گلہ درد کا یوں سفر مختصر کر لیا |
| ہر سفر میں لٹے یہ مقدر نہ تھا جب سمجھ آ گیا فیصلہ یہ کیا |
| پھر ہوا یہ کہ رختِ سفر بچ گیا راہزن کو یہاں راہبر کر لیا |
| ہم کو جنت میں پیدا کیا اور پھر ، پھر زمیں پر گرا کے بشر کر دیا |
| خاک سے اٹھ کے ہم نے کیا معجزہ ہم نے خود کو بشر سے گہر کر لیا |
معلومات