وہ خود شکستہ مجھے ملا تھا وہ مجھ کو کیسے سنوار دیتا
وہ اپنے خود سے فرار میں تھا وہ مجھ کو کیسے قرار دیتا
یہی تمنا تھی اس سے مل کر محبتوں کے یاں خواب بنتے
خود اس کی آنکھوں میں رتجگے تھے وہ خواب کیسے نکھار دیتا
زباں پہ حرفِ ملال رکھ کر لبوں پہ مسکان کیوں سجائی
وہ کھل کے کہتا تو جان اپنی میں اک ادا پر ہی وار دیتا
وہ میری حالت کو جانتا تھا مگر اسے میں نہ ڈھونڈ پایا
وہ قرض جتنے بھی جان پر تھے تمام اس کے اتار دیتا
مجھے خبر تھی کہ اس پہ آ کے خزاں کا موسم ٹھہر گیا ہے
میں اپنے حصے کے موسموں سے خزاں میں اس کو بہار دیتا
جو راز دل میں تھا میرے شاہدؔ وہ راز دل میں ہی رہ گیا ہے
کہے بنا موڑ مڑ گیا کیوں بس ایک لمحہ ادھار دیتا

0
18