| نکلے گا بے وفا وہ ، یہ امکان تو نہ تھا |
| میں سوگ میں تھا مان لو حیران تو نہ تھا |
| جیسے پہیلیوں میں چھپی ہوں پہیلیاں |
| اس کو سمجھنا اس قدر آسان تو نہ تھا |
| یادیں ہر ایک چیز سے لپٹی تھیں اس طرح |
| اس کے بغیر گھر مرا ویران تو نہ تھا |
| وہ کیا گیا کہ شہر میں ہم اجنبی ہوئے |
| وہ ہمسفر تو تھا مری پہچان تو نہ تھا |
| سب تلخیاں حیات کی پگڈنڈیوں پہ تھیں |
| رستہ جو قبر تک تھا وہ سنسان تو نہ تھا |
معلومات