| اے بت تراش سوچ لے |
| یہ سرمئی چٹان جو |
| تو کاٹ کر پہاڑ سے |
| بڑی ہی مشکلوں سے پھر |
| یہاں اٹھا کے لایا ہے |
| طلوعِ آفتاب سے |
| غروبِ آفتاب تک |
| ہے فکر میں تو مبتلا |
| خیال میں مجسمہ |
| جو خلق کر رہا ہے تو |
| چھپا ہوا ہے جو ابھی |
| تلک چٹان میں کہیں |
| جب اس کا سر بنائے گا |
| ترے خلاف ہی کوئی |
| سوال وہ اٹھائے گا |
| ہے شکل تیری دل فریب |
| فریفتہ ہو جائے گا |
| وہ خواب کچھ سجائے گا |
| نظر میں وہ بٹھائے گا |
| نظر سے جب گرائے گا |
| تو ٹوٹنے سے پھر تجھے |
| بچا کوئی نہ پائے گا |
| اگر تو مسکراہٹیں |
| بکھیرنے کی جہد میں |
| لبوں کو وا بنائے گا |
| تو لفظ جھیل پائے گا |
| بڑھا کے ہاتھ وہ اگر |
| دبوچ لے اگر گلا |
| کسے تو پھر بلائے گا |
| خمیدہ جسم میں تو پھر |
| بھٹک بھٹک ہی جائے گا |
| کمال ہے ہنر ترا |
| یہ شاہکار دیکھ کر |
| قدم جو ڈگمگائیں گے |
| تو گر گیا جو پاؤں میں |
| ترا خدا ہو جائے گا |
| اے بت تراش سوچ لے |
| یہ بت بنانا چھوڑ دے |
معلومات