| سوچ کا وہ دائرہ کافی مرا پھیلا گئی |
| جاتے جاتے بات کچھ ایسی مجھے سمجھا گئی |
| آخری موقع ملا تھا رائیگاں وہ بھی گیا |
| آگے بڑھ کر ہاتھ ناں پکڑا گیا شرما گئی |
| آنکھ اس کی میرے اندر جھانک سکتی تھی مگر |
| شکل سے میری نجانے کیوں وہ دھوکا کھا گئی |
| باری باری کر کے تو گر پھینکتی تو بات تھی |
| زندگی تُو پتھروں کی بارشیں برسا گئی |
| دن اسی کوشش میں گزرا خود کو باہم رکھ سکوں |
| رات جب آئی ہمیشہ کی طرح بکھرا گئی |
| ایک مدت بعد کیسے یاد اس کی آ گئی |
| یاد اُس کی اِس دلِ ناشاد کو بہلا گئی |
معلومات