| میں گم گیا تھا کبھی خود کو پھر ملا ہی نہیں |
| بس ایک زخم تھا جو آج تک سلا ہی نہیں |
| مجھے تلاش تھی اک شخص کی جو کامل ہو |
| مگر وہ شخص کبھی آج تک ملا ہی نہی |
| میں اعتماد کے قابل نہیں ہوں اس نے کہا |
| جہاں کہا تھا مجھے اس نے میں ہلا ہی نہیں |
| میری لکیروں میں در در کی ٹھوکریں لکھ دیں |
| مگر یہ میں ہوں کہ اس سے کوئی گلا ہی نہیں |
| مجھے یہ وہم کہ چہرا شناس ہوں شاہدؔ |
| مگر جو راز تھا اُس دل میں وہ کھلا ہی نہیں |
معلومات