اپنے آپ میں کھو جاتے ہیں
لمبی تان کے سو جاتے ہیں
زندہ تھے تو دور رہے وہ
قبر پہ آکے رو جاتے ہیں
ہر موسم سے پہلے آ کے
دکھ کے کانٹے بو جاتے ہیں
پھر بھی اپنے سارے رستے
اس کی جانب کو جاتے ہیں
ٹوٹے پھوٹے لوگ نہ جانے
کیوں شاہدؔ کے ہو جاتے ہیں
ق
دکھ اک جا کے دو آتے ہیں
سکھ اک آ کے دو جاتے ہیں
سارے رشتے بچھڑے ہم سے
ہم بھی آج چلو جاتے ہیں

0
14