اس بار ہم بھی خواب کوئی بُن نہیں رہے |
یا ہم میں اب خیال کے وہ گُن نہیں رہے |
لوگوں کا کیا گلہ کہ وہ مصروف ہیں بہت |
باتیں تو میری تم بھی ابھی سُن نہیں رہے |
ایسا نہیں کہ ٹوٹ کے بکھرے ہیں پہلی بار |
ٹکڑوں کو پہلی بار اب ہم چُن نہیں رہے |
ہر اک گلی میں مسجدیں تعمیر ہو گئیں |
لیکن ہمارے شہر میں اب فن نہیں رہے |
ہر شخص اپنی آگ میں تنہا ہی جل رہا |
شاہدؔ یہاں پہ پیار کے بندھن نہیں رہے |
معلومات