| گرا کے ہر روز خود کو پھر ہم نئے سرے سے اٹھا رہے ہیں |
| پسِ غبارِ عذابِ تعمیر خود سے بھی ہم چھپا رہے ہیں |
| یہ دل پگھل کر لہو ہوا ہے لہو بہاتے ہیں کاغذوں پر |
| ورق وہی ہیں جہاں سے پڑھ کر یہ شعر تم کو سنا رہے ہیں |
| شریکِ احساس کون ہو گا کسے دکھائیں گے زخم اپنا |
| یہاں پہ ہر شخص اجنبی ہے سو زخم اپنا چھپا رہے ہیں |
| یہاں پہ رائج ہے بدگمانی صداقتوں پہ یقیں نہیں ہے |
| یہی ہیں تیور اگر یہاں کے تو بات کس کو بتا رہے ہیں |
| بہت کریدا کہ راکھ میں اب شرر کوئی تو نہاں ملے گا |
| یہ راکھ صدیوں سے بجھ چکی تھی اب آگ اپنی جلا رہے ہیں |
| کوئی نہ آیا کوئی نہیں تھا اٹھا کے خود کو یہاں پہ لائے |
| چتا کو خود ہی جلا کے شاہدؔ اب استھیوں کو بہا رہے ہیں |
معلومات