| کیسا انسانِ بے اماں ہوں میں |
| لمحہ لمحہ یاں رائیگاں ہوں میں |
| پہلے لوگوں سے بس خفا تھا میں |
| اب تو خود سے بھی سرگراں ہوں میں |
| ایک ہونا ہوا ہے نا ممکن |
| تو زمیں ہے تو آسماں ہوں میں |
| کھو گئیں ہیں یاں منزلیں مجھ سے |
| تم بتا دو یہاں کہاں ہوں میں |
| تم تو کہتے تھے صبر ہے تم میں |
| اب تمہارا تو امتحاں ہوں میں |
| لوگ نرمی سے پیش آتے ہیں |
| وہ سمجھتے ہیں رائیگاں ہوں میں |
| مرے الفاظ سارے مہمل ہیں |
| تم یہ سمجھو کہ بے زباں ہوں میں |
| بن گیا ہوں تمہاری مجبوری |
| اب تمہارا تو راز داں ہوں میں |
| جب خدا ہی گماں ہے یاں شاہدؔ |
| پھر یہ سچ ہے کہ بس دھواں ہوں میں |
معلومات