| اک اور سال زندگی کا اب گزر گیا |
| میں اس سفر پہ دائمی اشکوں سے تر گیا |
| اب حال یہ ہے خود کو بھی پہچانتا نہیں |
| دیکھا جو آج آئینہ میں خود سے ڈر گیا |
| صحرا نورد میں بنا بس بھوک کے لیے |
| یہ پیٹ تو بھرا نہیں پر میرا سر گیا |
| میرا تمام خون پسینے میں بہہ گیا |
| دل میرا خون کی جگہ زخموں سے بھر گیا |
| جس گھر کو میں بچانے کو نکلا تھا چُھٹ گیا |
| اب یاد بھی نہیں رہا کب اپنے گھر گیا |
| دن رات ایک کر کے بنایا تھا گھونسلا |
| اک آندھیِ حیات سے سب کچھ بکھر گیا |
| شاہدؔ عجیب میں نے گذاری یہ زندگی |
| پیدا ہوا تھا آج کے دن آج مر گیا |
معلومات