Circle Image

خواجہ امید محی الدّین

@150247

نیدرلینڈ

خوش نِہاد و خوش مزاج و خوش خصیل
آبروئے مُلک و دیں طارق جمیل
کوثر و تسنیم میں دُھلتی زباں
لفظ و معنی کا جہانِ سلسبیل
ربّ اعلیٰ کی ثنائے بے مثال
الطویل و الطویل و الطّویل

0
17
لہجے میں کھنک ہے نہ مری لَے میں تب و تاب
ہر تار پریشان ہے بیکار ہے مضراب
اک عرصہ ہؤا بانجھ ہوئی مادرِ مسلم
کیسے کوئی پیدا ہو کہ وہ کوکھ ہے نایاب
جس کوکھ نے اجسام کئے خالد و طارق
جس رحم نے تخلیق کئے قاسمِ نایاب

0
7
وسعتِ الفاظ میں وہ نطق آرائی نہیں
جامۂ عقل و خرد میں چشمِ زیبائی نہیں
عظمتِ کردار کیا ہے رشتۂ آدم کی لاج
سطوتِ گفتار کیا ہے سُورۂ صف کا مزاج
قول جب تک فعل کے تابع نہ ہو تقصیر ہے
خاک کے پُتلے کی گویا کالبُدی تصویر ہے

0
15
نثّار و دانش ور تھا صحافی ادیب تھا
لرزہ تھا قصرِ شاہی پہ ایسا خطیب تھا
کوئی پچھاڑ دے اسے کس کی مجال تھی
دشمن بھی جس پہ نازاں ہو ایسا رقیب تھا
دیکھا ہے مَیں نے بارہا شورش کا بانکپن
عشقِ رسول میں مگر سب سے عجیب تھا

0
8
آہنی عزم و ارادہ آہنی اعصاب تھے
نشتر و جنگ و بہادر آہنی احباب تھے
اپنے نصب العین پر سب کچھ نچھاور کر دیا
اس لئے شاداں تھے دائم اس لئے شاداب تھے
نہ فرستادہ تھے وہ نہ دعوائے الہام تھا
پھر بھی لاکھوں دھڑکنوں کے منبر و محراب تھے

0
13
سوچتا رہتا ہوں ایسی باتیں اب شام و سحر
آنکھ کھولوں تو پرانے دوست آ جائیں نظر
نہ کسی کا فون آتا ہے نہ کوئی بات چیت
میرے ساتھ ہی ایسا ہے یا باقی بھی زیر و زبر
جانچتا رہتا ہوں مَیں بدلا نہیں پر پھر بھی وہ
کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں مجھ کو دیکھ کر

0
8
دیکھ لینا ایک دن خونّ شہیداں کا کمال
کچھ دنوں کی بات ہے تجھ پر بھی آئے گا زوال
یہ فلک یونہی نہیں نا یہ زمیں ہے کھیل کُود
ٹوٹ جائے گی ہر اک شے جب کہے گا ذوالجلال
تیری میری میری تیری ایک دھوکہ اک فریب
میری تیری تیری میری کیا مثال و کیا مجال

0
11
کون غلطی پر تھا سوچیں گے کبھی
مَیں یا وہ جو جان میری تھے کبھی
وعدے کرنے میں بڑے فیّاض ہیں
ہاں مگر کرتے نہیں پُورے کبھی
بھُوک کیا ہے ان کو بابا کیا خبر
حُکمراں سوئے نہیں بھُوکے کبھی

0
4
تجھ کو پا کر بھی مرے غم کا مداوا نہ ہؤا
چاند پھر چاند تھا اب کے بھی ستارہ نہ ہؤا
مَیں نے ہر بار جفاؤں کا صلہ پیار دیا
بحر کو بحر ہی رہنا تھا کنارہ نہ ہؤا
ان گنت سجدے کئے دامنِ دل چاک کیا
سختیاں بھوک کی جھیلیں پہ گزارا نہ ہؤا

0
5
جادۂ حق پر سدا قائم رہا تیرا قلم
کیا عروسِ انجمن کیا خانقاہوں کے علم
حالی و اکبر کا بھی مخفی نہیں رنج و الم
پر ترے شعروں سے مَیں سمجھا جہادِ بالقلم
تیرا ہر شعر و سخن تو عظمتِ اسلام ہے
پس چہ باید کرد گویا امن کا پیغام ہے

0
7
آپ شیریں سُخن آپ غُنچہ دہن آپ لُطف و کرم آپ لعلِ یمن
سرورِ ملک و دیں جادۂ سالکیں مُخبرِ صادقیں غازۂ مومناں
آپ شانِ خدا آپ درسِ ہدیٰ آپ سب سے جدا شافعِ دوسرا
اے شہہِ انبیا یہ اُمیدِ گدا کب سے رہ میں کھڑا منتظر دید کا

0
10
شافعِ بحر و بر دافعِ ہر خطر ہو کرم کی نظر میرے احوال پر
راحتِ عاشقاں وجہِ کون و مکاں ہادئی کارواں رہروِ لا مکاں
آپ عفو و کرم آپ گنجِ نعم آپ شاہِ امم آبروئے قلم
خوہشِ دلبراں آرزوئے نہاں رہبرّ قدسیاں کوچۂ عاشقاں
آپ دُرّ ِ عرب آپ اُمّی لقب آپ فرمانِ ربّ نازشِ روز و شب
سطوتِ کُل جہاں عظمتِ این و آں لوحِ نقشِ جہاں بردۂ عاصیاں

0
12
اے خدائے عزّ و جل اے مالکِ ارض و سما
تیرے علمِ غیب سے کچھ بھی نہیں ہے ماورا
تُو حئی ہے وہ کہ جس پر مَوت آ سکتی نہیں
تُو وکیل و ناصر و غوث و غیاث و کِبریا
کار فرما ہیں ترے احکام بے چُون و چرا
کس کو ہے سرتابئی احکام سے یارا ذرا

0
10
کسی محفل میں جب وہ بے نقاب آیا تو کیا ہو گا
خزاں میں لالہ و گُل پر شباب آیا تو کیا ہو گا
ابھی کچھ وقت باقی ہے ذرا تیّاریاں کر لو
اگر محشر میں نا موزوں جواب آیا تو کیا ہو گا
کسی سے جھوٹے وعدے کرنا چارہ گر کی فطرت ہے
حقائق کو چھپانے کا سراب آیا تو کیا ہو گا

0
11
پہچان کر پہچاننے سے صاف پھر گئے
بربط کے تار ٹُوٹے تو نغمے بکھر گئے
غلطی سے ہاتھ لگ گئے زُلفِ دراز پر
چلئے اسی بہانے سے گیسو سنور گئے
کاٹی ہو جس نے زندگی روتے ہوئے یہاں
اس کی بلا سے بچّے اگر زر بہ زر گئے

15
کتنی غربت ہے کتنی عسرت ہے
کون دیکھے گا کس کو فرصت ہے
تازہ کچرے کے ڈھیر آئے ہیں
کتنے کھانے ہیں کتنی لذّت ہے
کھلی دعوت ہے بھیک منگوں کو
کھُلّا کھاؤ سبھی کو دعوت ہے

0
16
اس کے ہر ایک حرف میں بر جستہ تیر تھا
وارفتگی میں میرا عمل ناگزیر تھا
پیسے ادھار لے لئے اور صاف پھر گئے
کیسے بتاؤں مَیں کہ وہ فِدوی کا پیر تھا
تم تو بُرے نہیں ہو مگر غور تو کرو
جس نے بنایا مال وہ کس کا وزیر تھا

0
18
غلط ہے زندگانی لالہ رُخ کے تِل سے گزرے گی
اگر یہ سوچ نہ بدلی تو لا حاصل سے گزرے گی
مرا امروز ناواقف ہے اُلفت کے تقاضوں سے
یہ وہ لیلیٰ نہیں جو قیس کے محمل سے گزرے گی
ہوا کے دوش پر طوفان سے مت کھیلنا لوگو
اگر بپھرا گئی یہ موج تو ساحل سے گزرے گی

0
11
آنسُو آنکھوں میں دل میں چھالے ہیں
ہجر کے قافیے سنبھالے ہیں
میرے عصیاں تو سب سے مخفی تھے
میرے اک دوست نے اچھالے ہیں
اس کی ہمّت کو سب سلام کرو
جس نے دشمن بھی گھر میں پالے ہیں

0
12
وفورِ شوق میں مارے گئے ہیں
فقط ہم ہی نہیں سارے گئے ہیں
زمیں پر آدمیت سر بہ زانو
فلک پر چاند اور تارے گئے ہیں
بہت کم ہیں جو خوش تھے زندگی سے
کہ اکثر تو تھکے ہارے گئے ہیں

0
15
نہ دیتے گر معافی وہ تو دل رنجور ہو جاتا
یہی گھاؤ پھر آخر ایک دن ناسور ہو جاتا
اگر جنّت میں عورت کی بھی خواہش پوچھ لی جاتی
تو شاید مرد بیچارہ بھی کوئی حور ہو جاتا
اگر ان پر مری غربت کا پردہ چاک ہو جائے
تو جتنا پاس ہوں اس وقت اتنا دُور ہو جاتا

0
21
سُن لو مَیں آج اعتراف کرتا ہوں
سارے کہتے ہیں تُم پہ مرتا ہوں
لوگ کہتے ہیں سچ ہی کہتے ہیں
اس لئے ہی بنا سنورتا ہوں
یہ اداسی نہ ماں پہ ظاہر ہو
مَیں تو ہر روز ہی بکھرتا ہوں

0
20
اے مرے خدا مرے چارہ گر مرے چارہ گر
مرے غم کا کوئی علاج کر مرے چارہ گر
سب کی راتیں کالی ہیں دکھ نہیں کہ ازل سے تھیں
مرے دن بھی کالے ہیں غور کر مرے چارہ گر
سبھی رنج و غم تجھے علم ہے بے نفوس ہیں
مری جان پہ بنے معتبر مرے چارہ گر

0
18
دیکھ مرے دل میں ذرا آ کے کبھی دیکھ
ویسے نہ نظر آئے تو شرما کے کبھی دیکھ
مَیں عام زبانوں میں سمجھتا نہیں ہمدم
کہنا ہے اگر مجھ سے تو فرما کے کبھی دیکھ
حالات سمجھنے ہیں تو کافی نہیں ادراک
قرآن سے مایوسیاں ٹھُکرا کے کبھی دیکھ

0
31
آج کے بعد کبھی یاد نہ آنا مجھکو
یاد آتا ہے وہی گزرا زمانہ مجھکو
تجھ کو جانا تو زمانے کے ستم بھول گیا
تم ستم زاد ہو کہتا تھا زمانہ مجھکو
تیر نکلا ہے کماں سے تو کہیں مار نہ دے
میرے صیّاد نے باندھا ہے نشانہ مجھکو

0
16
روک لے بڑھتے قدم کو روک لے ظالم کا ہاتھ
ختم ہو گی چند قدموں پر تری زرّیں حیات
اس جہانِ فانی سے کوئی کبھی خوش نہ گیا
کوئی ایسا ہے تو آئے دے گواہی کائنات
سرورِ اقدس نہ رہ پائے تو کس کو ہے بقا
کتنا ہی روشن ہو دن آخر ضرور آئے گی رات

0
23
جو اب تیرا فسانہ ہے وہی میری کہانی تھی
تمہیں باتیں سنا کر شاعروں سے داد پانی تھی
نہیں عادت مجھے ہرگز گلوں شکووں کی اے دلبر
مرے ہم پیشہ کو اس آڑ میں اپنی سنانی تھی
نہیں ہر گز نہیں کس نے کہا وہ بد تمیزی تھی
جنہیں وہ گالیاں کہتے ہیں تیری گُل فشانی تھی

0
18
سر فروشی کیا ہے مجھ کو کاش سمجھائے کوئی
سر کٹانے کی تمنّا میں نہ مر جائے کوئی
ٹھوکریں کھا کھا کے اب آخر سنبھلنا آ گیا
کوئی چارہ گر نہیں ہے راہ بتلائے کوئی
تیرے حِصّے کا جنوں بھی مجھ کو ہی بخشا گیا
ان پری چہروں سے یارب کیوں نہ گھبرائے کوئی

0
2
35
اس مُلکِ پُر آشوب کا دستور کہاں ہے
سب ہمسرِ مُوسیٰ ہیں مگر طُور کہاں ہے
دعویٰ ہے کہ تُم عاشقِ جانباز ہو لیکن
غافل تری زنبیل میں منصور کہاں ہے
جس کے لئے مُلّا نے کئے سجدے ہزاروں
اب پُوچھتا پھرتا ہے مری حُور کہاں ہے

6
83
نہ خوشیوں پر تعجبّ ہے نہ کوئی غم ستاتا ہے
عمل کا خانہ خالی ہے یہ دُکھ پیہم ستاتا ہے
مرے آنے نہ آنے سے کسی کو فرق ہو تو کیوں
کہ اب تو تیرے نا آنے کا غم بھی کم ستاتا ہے
خزاں کے نام سے عاشق مزاجوں کو شکایت ہے
بچھڑنے والوں کو ذِکرِ گُل و شبنم ستاتا ہے

28
ہر جگہ ہے ایک ہی تکرار دوست
بِک گئے ہیں جُبّہ و دستار دوست
ایک بھی ابتک نہیں پُوری ہوئی
خواہشوں کے لگ گئے انبار دوست
سارے مسلم ہیں مہاجر بھی ہیں گو
لیکن اب کوئی نہیں انصار دوست

36
حالات نا گزیر سہی در بدر نہیں
کیا بیت گئی رات پہ دن کو خَبَر نہیں
کنجِ قفس میں رہ کے بھی شکوہ نہیں کیا
وہ تیرگی ہے با خدا جسکی سحَر نہیں
وہ اپنی بات کہتے ہیں تو مَیں کیوں چُپ رہوں
یا یوں سمجھ لوں آہیں مری بارور نہیں

0
25
کچھ عرصے سے راقم کے ہیں غم اور زیادہ
کہتا ہوں تو کرتے ہیں سِتَم اور زیادہ
آؤ کبھی بیمار کی کُٹیا میں بھی دیکھو
کس طور یہاں گُھٹتا ہے دم اور زیادہ
اس مُلک میں کیا حال ہے نادار کا مت پوچھ
لکھتے ہوئے روتا ہے قَلَم اور زیادہ

0
29
آنکھ سے دیکھ کے بھی دل سے بہت دُور رہا
مَیں تو معذور تھا وہ مجھ سے بھی معذور رہا
کسی کو دیکھنا اور یکدم وہیں سہم جانا
سرِ محفل یہ تماشا بڑا مشہور رہا
نا کلیم اُللہ ہے اب وہ اور نہ موسیٰ کہیں
طُور جو طُور تھا وہ آج بھی کوہ طُور رہا

0
38
غور سے سُن لیں خدارا کیا کہا منظور نے
ان میں اکثر وہ ہیں جن کا حق دیا دستور نے
آج تک جن لوگوں کو آ کر گھروں سے دھر لیا
ان کے حفظ و امن کا وعدہ کیا منشور نے
کام کرتے مر گئے کانوں میں جو مزدور وہ
ان کے زندہ رہنے کا چھینا ہے حق مغرور نے

0
24
اگر وہ چھوڑ گیا ہے تو اس کا غم نہ کر
ذرا ذی عزم بن اپنا وقار کم نہ کر
ہوا کے دوش پر جو منزلوں کی اور گئے
ٹھہر کے دیکھ اُن کی پھرتیاں رقم نہ کر
نہیں ہے حرص و آز کی ذرا طلب مجھ کو
خدا کے واسطے یہ دعویٰ اے صنم نہ کر

20
عجب مضمون ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا
اگر وہ بات نہ کرتے تو خوابوں پر یقیں آتا
مجھے کیا علم تھا کہ وہ بھی آ بیٹھے ہیں محفل میں
وگرنہ عذر کر لیتا یا پھر خلوت نشیں آتا
چلو اچھا ہؤا دل کی زباں پر آ گئی آخر
اگر وہ آج نہ کہتے یہ مضموں بعد ازیں آتا

24
بھرے بیٹھے ہیں اب واپس بلا لے
کہ دل کو پڑ گئے ہیں جاں کے لالے
دلِ مہجور کو ہجرت کا غم ہے
سنبھل سکتا نہیں ہے دل سنبھالے
ضرورت پڑ رہی ہے دشمنوں کی
بچا لے کوئی اپنوں سے بچا لے

0
35
وہ آئے بیٹھے ہیں تو کیا کروں مَیں
پڑوں پاؤں کہیں پر جا مروں مَیں
مسلسل چلتے چلتے تھک گیا ہوں
مگر وہ کہتے ہیں چلتا چلوں مَیں
زبانی سننا بھی توہین ہے تو
ہزاروں چٹھیاں کیسے پڑوں مَیں

0
24
دیکھ کر مجھ کو وہ پہچان نہیں پایا امید
اس کی دانست میں شاید ہو مرا سایہ امید
اس کی آمد پہ سبھی ارض و سما جھوم اٹھے
چاند تاروں نے کہا دیکھ لو کون آیا امید
بندوبست آج بھی فیسوں کے لئے ہو نہ سکا
بس یہی وجہ تھی وہ دیر سے گھر آیا امید

0
25
سو گئے دیوار و در سارا جہاں سوتا رہا
آدمی کی بے بسی پر آسماں سوتا رہا
کون ہے تیرا یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں
تُو جو زندہ ہے تو کیا تیرا نشاں سوتا رہا
لوگ رہتے ہیں زمیں پر بستیاں آباد ہیں
لُٹ گیا آدم بچارا پاسباں سوتا رہا

0
31
آنکھ سے دیکھ کے بھی دل سے بہت دُور رہا
مَیں تو معذور تھا پر وہ بڑا مسرور رہا
کسی کو دیکھ کر یکدم وہیں سہم جانا
سرِ محفل یہ تماشا بڑا مشہور رہا
نا کلیم اُللہ ہے اب اور نہ مُوسیٰ ہے کہیں
طُور جو تب تھا وہی آج بھی کوہ طُور رہا

0
28
کبھی حرم تو کبھی دَیر پے مچلتا ہے
مرا مزاج نئی کروٹیں بدلتا ہے
حقیر جان کے مجھ پر نگاہِ غیظ نہ ڈال
مَیں وہ دیا ہوں جو طوفان میں بھی جلتا ہے
مرے وطن میں ہر اک شخص پارسا ہے مگر
مرا وجود کیوں ہر آدمی کو کھلتا ہے

0
35
ضروری تو نہیں تم جو کہو وہ حرفِ آخر ہو
ذرا سی شکل ہے تو کیا نہ مسجد ہو نہ مندر ہو
اگر کافر ادائیں ہیں تو اک مسلم کو ان سے کیا
جو چاہو ڈھونڈ لو ایسا جو ان سے بڑھ کے کافر ہو
ادب آداب سمجھانے سے اس کو کچھ نہیں حاصل
جسے آدابِ مجلس کا خصوصی درس ازبر ہو

0
30
سُود کی لعنت نے چھینا ہے زمانے کا سکوں
ہر کوئی ناشاد ہے ہر شخص ہے خوار و زبوں
ارتکازِ مال و زر ہے کھیل دولت مند کا
باقی سارے بھیڑ بکری کی طرح ہیں سر نگوں
زادِ راہ کی معنویت ہے کہہ و مہ پر عیاں
مَیں اگر چاہوں بھی تو کیوں کر کہوں کیسے لکھوں

0
22
روٹھ جاتی ہو تو کچھ اور حسیں لگتی ہو
شکن آتی نہیں جس پر وہ جبیں لگتی ہو
مَیں نے ہر گام پہ اخلاص و وفا وار دئے
تم بھی ہر موڑ پہ پتھّر کی زمیں لگتی ہو
میرے رستے میں منازل پہ منازل آئیں
میرا وجدان ہے تم اب بھی وہیں لگتی ہو

0
29
رُخصت ہؤا تو دل کو پریشان کر گیا
ترکِ تعلّقات کا اعلان کر گیا
مضمر ہے تیرے شر میں بھی اک خیر بالیقیں
اس زاوئے سے زندگی آسان کر گیا
جو کام آج تک کوئی دشمن نہ کر سکا
وہ نَو مئی کو ٹیم کا کپتان کر گیا

0
34
غزل لکھوں تو لکھوں اپنے جانِ من کے لئے
زہے نصیب اگر تاب ہو سُخن کے لئے
عجیب طُرفہ تماشا ہے سارے بیٹھے ہیں
وطن فروش بھی آئے ہیں اب وطن کے لئے
ہجوم یونہی نہیں ہے شراب خانے میں
دوا ضروری ہے انسان کی تھکن کے لئے

0
36
جہاں تک کام کرتی ہیں نگائیں تیرہ بختی ہے
غریبی رقص کرتی ہے مصیبت ساتھ چلتی ہے
کسی کا پیٹ ننگا ہے کسی کے پاؤں ننگے ہیں
یہاں پر ہر کوئی ننگا ہے یہ ننگوں کی بستی ہے
اُدھر حوّا کی بیٹی سیٹھ کے پہلو میں لیٹی ہے
ضرورت جبر کرتی ہے حیا آنسو بہاتی ہے

0
36
کبھی کبھی مَیں یہ سوچتا ہوں جو مَیں نہ ہوں گاتو کیا کروگے
کتابِ دل پر جو لکھ لئے ہیں وہ سارے خا نے سیاہ کرو گے
جو ظلم کرنے ہیں کر لو بے شک کہ اب تو محفل کی جاں تمہی ہو
جواب دینا پڑے گا جس دم تو دیکھ لینا حیا کرو گے
ترا تجمّل تری ادائیں دراز زلفیں حسین چہرہ
خدارا چھوڑو یہ نقشے بازی اُسے چڑھا کر خدا کروگے

0
68
مر گئی کیونکہ دوائی کے لئے پیسے نہ تھے
اللہ بھی راضی نہیں دامن میں کچھ سجدے نہ تھے
کر لیا ترکِ تعلقّ تا کہ وہ راضی رہیں
آج بھی دل ہے وہیں کہ اس پہ تو پہرے نہ تھے
پھر رہے ہیں ہاتھ میں خیرات کے برتن لئے
دے دو کچھ راہِ خدا کہتے ہوئے ڈرتے نہ تھے

0
37
سوچا تھا کچھ اور پہ لکھتا ہے قَلَم اور
ہم خاک نشینوں پے ہوئے ظلم و ستم اور
منزل کی تمنا تھی مگر رستے ہیں اوجھل
رکھتے ہیں کہیں اور تو پڑتے ہیں قدم اور
اک خواب کی خواہش ہے مگر جاگتی آنکھوں
رہنے کے لئے گھر نہیں گھُٹنے کو ہے دم اور

0
38
شعلہ ہوں اگر مَیں تو بجھا کیوں نہیں دیتے
مِٹّی ہوں تو پھر اسمیں دبا کیوں نہیں دیتے
ہر چوک پہ ہر شہر میں آزاد ہیں قاتل
عادل ہو اگر تم تو سزا کیوں نہیں دیتے
رکھّا ہے کسی کونے میں دشمن کے لئے جو
اک بار وہ بم ہم پہ چلا کیوں نہیں دیتے

0
36
تمہیں دیکھا تھا جب وہ دن مجھے بھُولا نہیں اب تک
کہاں گزرا ہے یہ عرصہ نہیں آتا یقیں ابتک
بہت ڈھونڈا یہاں اپنے لئے کچھ بھی نہیں پایا
وہی ہے آسماں تیرا وہی تیری زمیں اب تک
کوئی کالی کلوٹی ہو یا کوئی آنکھ سے فارغ
وہ اس دیوالیہ پن میں بھی ہے زہرہ جبیں اب تک

0
37
زلف لہرانے تبسّم ریز افسانے کا نام
عشق کیا ہے خود تڑپنا اور تڑپانے کا نام
ماسوا اُن کی گلی کے اور کچھ آتا نہیں
باوجود اس کے مسلسل جھڑکیاں کھانے کا نام
زاہدِ قبلہ تو جیسا چاہیں فرماتے رہیں
روشنی اصلاً ہے ان کے بام پر آنے کا نام

0
40
ظاہراً روشن سہی پر اندروں تاریک ہے
کیونکہ میرا جامہ میرے دشمنوں کی بھیک ہے
آتشِ نارِ جہنّم سے جلا دو مُلک کو
کس سیاستدان کی یہ خوں زدہ تحریک ہے
بیٹا ہوں آدم کا پر وہ بُوزنا کہتے ہیں کیوں
باخدا آدم کی یہ کتنی بڑی تضحیک ہے

0
28
چوٹ ظاہر ہو نہ ہو پر چہرہ تو غمّاز ہے
درد ہے شاید کہیں یا طبع کچھ ناساز ہے
سوچتا ہوں اور کچھ ہوتا ہے لیکن مختلف
کیا کوئی میرے ارادوں میں خلل انداز ہے
تیر مارا تھا کسے اور ہو گیا کوئی شکار
جاؤ بتلاؤ کہ وہ کچّا نشانے باز ہے

0
22
ہر سانس کہہ رہی ہے کہ توبہ ہزار کر
کر لے جو وہ قبول اسے اختیار کر
دامن کو جھاڑ کر نئی منزل کی راہ لے
سب وسوسے بھلا کے دل و جاں نثار کر
مجھ کو نہیں ہے کوئی شکایت زمانے سے
مجھ کو ہے اعتبار تُو بھی اعتبار کر

0
31
اگر تم چھوڑ جاؤ گے تو کیا مَیں مر ہی جاؤں گی
نہیں مَیں زندہ ہوں اور زندگی کے گیت گاؤں گی
یہ تم پہلے نہیں ہو بے وفا لوگوں کی منڈی میں
جو مَیں اپنے رقیبوں سے کبھی آنکھیں چراؤں گی
مُحبّت پیار الفت وعدے قسمیں سب فسانے ہیں
مَیں اب ایسے فسانوں پر نئے پہرے بٹھاؤں گی

0
40
آٹے کو لے کے مر گیا آٹا نہیں ملا
مِٹیّ کا پیٹ بھر گیا آٹا نہیں ملا
پاؤں پہ چل کے آیا تھا اک ماں کا لاڈلا
میّت کی شکل گھر گیا آٹا نہیں ملا
لعنت ہزار تم پہ اے آٹے کے تاجرو
اک اور گھر اُجڑ گیا آٹا نہیں ملا

0
28
زندگانی کا سفر اب مختصر ہونے کو ہے
یوں گماں ہوتا ہے سب زیروزبر ہونے کو ہے
یہ بہاریں یہ فضائیں یہ زمین و آسماں
ایک دن تو یہ سبھی کچھ بے سحر ہونے کو ہے
وہ گناہ جو آج تک سب پردۂ اخفا میں تھے
آج وہ غائب بھی سب پر مشتہر ہونے کو ہے

43
ایک دن کے روزے سے وہ لوگ گھبرائیں گے کیا
عُمر بھر جو پیٹ پر پتھّر لئے پھرتے رہے
ایک مَیں ہی تو نہیں اس دیس کے اکثر نحیف
ٹھوکریں کھا کر اُٹھے اور اُٹھ کے پھرگرتے رہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک استفسار ہے سب مفتیانِ دین سے

42
دل خوش ہؤا ہے ان سے ملاقات ہو گئی
گو تھوڑی دیر ہی سہی پر بات ہو گئی
کہنے لگے کیا حال ہے کچھ بات کیجئے
جب حالِ دل سنایا وہیں رات ہو گئی
کل رات کو ہی چھت کی مرمّت کرائی تھی
اب پھر غریب خانے پہ برسات ہو گئی

0
33
جس کا ہر سجدہ درِ یار پہ ناکام رہا
جا نماز اس کے لئے کاہے کا انعام رہا
عمر جیسی بھی کٹی پردۂ اخفا میں کٹی
اب تو واللہ یہ تماشا بھی سرِ عام رہا
جب کوئی پوچھتا ہے قِصّۂ انجامِ وفا
صاف کہہ دیتا ہوں ہر کام میں ناکام رہا

1
43
اس جیون سے وہ کیا سیکھے جو سیکھتے سیکھتے خاک ہؤا
دُکھ سہتے صدیاں بیت گئیں اب رات کا دامن چاک ہؤا
ہر رات تو کالی تھی ہی مگر ہر صبح بھی یاں بے نُور رہی
کیا عمر مہینے گھڑیاں برس ہر لمحہ ہی عبرتناک ہؤا
جب ایک فلک تھا تب بھی سارے رنج و اَلَم ہمراہ رہے
اب دیکئے کیا بیتے گی وہاں جب تہہ در تہہ افلاک ہؤا

47
کبھی شاخِ سبزہ و برگ پر کبھی غُنچہ و گُل و ڈال پر
پھرے ہم جہاں میں گلی گلی فقط اک امیدِ وصال پر
یہی عہد تھا کوئی اپنا غم نہ بیاں کریں گے کسی سے ہم
جوں ہی چشمِ تر نے کئے ستم سبھی رو دئے مرے حال پر
گو کہ شاعرانہ خیال ہے مگر پھر بھی ایک مثال ہے
جو جہاں کا حُسن و جمال ہے اسے تج دوں ان کے جمال پر

43
ایسی تقدیس ہے رشتوں کے پیار میں
جیت ہی جیت ہے جس کی ہر ہار میں
جب گلے مِل گئے رُوح لرزا گئی
سب فِرِستادہ حاضر تھے دربار میں
آج احساسِ عقل و خرد مِٹ گئے
بجلیاں بھر گئیں دل کے ہر تار میں

0
91
آؤ اے دوست پھر بہم ہو جائیں
شاید کچھ دوریاں ہی کم ہو جائیں
ناراضیوں پر مکالمہ ممکن ہے
گر تُم اور مَیں پھر سے ہم ہو جائیں
کتنے ہی گھر اُجڑتے دیکھے ہیں
دونوں آپس میں جب اہم ہو جائیں

0
46
کس طرح تحریر ہو کیسے سناؤں داستاں
رہ رہے تھے شہر میں کوئی کہیں بیوی میاں
ایک بیٹے سے بھی خالق نے نوازا تھا انہیں
خوبصورت زندگی تھی روز و شب کے درمیاں
ایک دن کے حادثے نے گھر کو اوندھا کر دیا
مَوت نے آ کر اچانک چھین لی بیٹے کی ماں

0
2
87
یہاں انصاف بِکتا ہے یہاں قانون بکتا ہے
یہاں زندہ بھی بکتا ہے یہاں مدفون بکتا ہے
یہاں ہر رات لاکھوں عورتیں نیلام ہوتی ہیں
یہ وہ دھندا ہے جو ہر چوک پر پرچون بکتا ہے
یہ ایسا دیس ہے لوگو جہاں ہر کام جائز ہے
یہاں سب سے بڑا ڈاکو بڑے منصب پہ فائز ہے

3
90
فون کیا تھا خواب کی تعبیر تھی
ماضی کی یادیں نہیں شمشیر تھی
جو حقیقت تھی فسانہ بن گئی
ہر کہانی پاؤں کی زنجیر تھی
روز ملتے تھے کبھی لڑتے بھی تھے
اگلے دن پھر ملنے کی تدبیر تھی

1
41
آسودگی نے فقر کو بد مست کر دیا
دنیا کی عیش کوشی نے دو لخت کر دیا
کچھ گردشِ حالات تھی کچھ اُن کی بے رُخی
مجھ ایسے خوش مزاج کو بھی سخت کر دیا
کیا سوچنا کہ کل کلاں انجام کیسا ہو
جب وقت آیا فیصلہ یک لخت کر دیا

28
رُکھّ نئیں جھُکدے ہر ویلے بندے نوں جھُکنا پیندا اے
اے گل مَیں کلّا نئیں کہندا سارا جگ ای کہندا اے
مُلّا وِچ نمازے کھلیا پر مونہہ کیتا سُو کَیں ولّے
جھلیا کسے نوں دس پُچھ لیندوں کِس پاسے ول لہندا اے
جیون جیون مرنا ایں تے مریاں وی گل مُکنی ناہیں
ایس نکمّے پیٹ دے پچھِے کنّے ترلے لیندا اے

57
بیچ کر ہاتھوں کے کنگن خوشنما لگنے لگی
آندھیوں میں بھی جو جلتا ہے دیا لگنے لگی
دیکھ کر اس کا سراپا مَیں وہیں غش کھا گیا
ماں کے گھر رانی تھی لاڈو اب گدا لگنے لگی
عمر بھر جس کے لئے بس دلہنیں سجھتی رہیں
آج جب بیٹی نظر آئی حیا لگنے لگی

3
57
روکنا مقصود ہے تو اپنی خواہشات روک
جو کسی کا دل دُکھا دے چھوڑ ایسی بات روک
اپنی قسمت سے گلہ ہر وقت کرنے کا نہیں
آنسوؤں پر بس نہیں پر آنکھ کی برسات روک
اس کے وعدوں پر نہ ہرگِز زندگی ترتیب دے
اپنے رستے آپ پیدا کر کے کالی رات روک

49
اللہ مرے آلام کی تاثیر بدل دے
ہر تیرہ شبی والے کی تقدیر بدل دے
اک خواب ہی دیکھا تھا کوئی جُرم نہیں تھا
اس خوابِ زبوں حال کی تعبیر بدل دے
مجبور ہیں مقہور ہیں کشمیر کے باسی
اس خِطّۂ مظلوم کی تصویر بدل دے

55
زیست کا انتخاب کون کرے
اپنی قسمت خراب کون کرے
تیری زلفوں کے جال میں پھنس کر
فکرِ یومِ حساب کون کرے
جس جگہ ہر کوئی لُٹیرا ہو
اس جگہ احتساب کون کرے

0
48
پھر وہی طعنے وہی شکوے وہی آہ و بکا
کاش کہ اس کے علاوہ بھی تمہیں کچھ سُوجھتا
مَیں بھی دیکھوں شکل اپنی تم بھی دیکھو غور سے
پھر کسی ثالث سے کہہ دیں گے سنائے فیصلہ
جانے ان زہرہ جمالوں کو ہے اتنا وہم کیوں
کوئی بھی ان کے برابر کا نہیں ہے دوسرا

0
62
وہ رہ گِزر ہے دل کی کہ منزل نہیں کہیں
یہ بحر ہے وہ بحر کہ ساحل نہیں کہیں
آدم کے حرص و آز نے جنگل بنا دیا
بستی بھری پُری ہے پہ ہلچل نہیں کہیں
انصاف قتل ہوتا ہے مُنصف کے رُو برو
عادل ترے نظام سا باطل نہیں کہیں

0
44
بیکار ہے اب شکوۂ اہلِ بتاں امید
رکھّا ہے جہاں تیر وہیں پر کماں امید
مسجد کلیسا مندر و کعبہ اداس ہیں
گریہ کناں ہو صبح تو کیسی اذاں امید
امروز حالِ فردا پہ مایوس و مضطرب
ماضی بھی محض قِصّۂ عشقِ نہاں امید

0
41
وہ منزلیں اپنی پا بھی گئے ہم راہ میں دست بہ داماں ہیں
نے جوش و جنوں نے عقل و خرد کس پستئی فکر کا ساماں ہیں
موجوں کے تھپیڑوں کو چھوڑو کچھ ساحل پر بھی ڈوب گئے
کچھ اہلِ جنوں کچھ دِل والے ہر حال میں خنداں و رقصاں ہیں
کیوں ایسی راہ پہ چل نکلے جس راہ پہ سنگِ مِیل نہ تھے
منزل کے نشاں معدوم ہوئے اب ہر بن خارِ مغیلاں ہیں

0
73
ہر شعر پہ اے دوست مکرّر نہ کہا کر
لکھاہے ایک بار تو اک بار سنا کر
ہر بات کی تشہیر مناسب نہیں ہوتی
ہر بات کے مضموں کو نیا فہم عطا کر
ہو جاتی ہیں انجانے میں ہمدم جو خطائیں
وہ رات کو یاد آئیں تو انگلی پہ گنا کر

0
71
وہ جس نے میری راہوں میں کانٹے بچھا دئے
مَیں نے قدم قدم پہ واں سجدے سجا دئے
میرے اور ان کے بیچ نہ تھی ایسی کوئی بات
لوگوں نے کینہ پروری سے پَر لگا دئے
جس بیوہ نے بتائی ہو فاقوں میں زندگی
اس کی بلا سے بچّوں کو ارض و سما دئے

48
سیلاب کے بعد بچ رہنے والا بوڑھا باپ
مَیں اپنی دعاؤں کا اثر ڈھونڈ رہا ہوں
تاریک اندھیروں میں سحر ڈھونڈ رہا ہوں
سیلاب نہیں ایک قیامت تھی جو گزری
اس موڑ پہ اک گھر تھا وہ گھر ڈھونڈ رہا ہوں
امداد کے لالچ میں جواں لاشوں کو نوچا

0
29
افسردہ ہو غمگین ہو کس سوچ میں گُم ہو
مَیں ساتھ ہی بیٹھا ہوں مرے ساتھ ہی تُم ہو
فرقت پہ تو ناراض تھے اب ملنے پہ ناراض
اب تک نہ سمجھ پایا صنم کیسے صنم ہو
ہے جلبِ زر و مال کا ہر بندہ پجاری
گفتار کا غازی ہو کہ قاضی کا قلم ہو

0
69
مَیں ٹھیک ہوں تو وہ بھی مہ پارہ نہیں نوید
تھوڑا فسانہ گو سہی سارا نہیں نوید
دعویٰ تھا کل تلک کہ رہِ یار کے عوض
منزل بھی کوئی مجھ کو گوارا نہیں نوید
جاہ و حشم بھی گردشِ لیل و نہار ہے
اس پر کسی بشر کا اجارہ نہیں نوید

0
84
رسوائیوں کا ڈر ہے تو مونہہ میں زبان رکھ
ہر جا ترے رقیب ہیں واللہ دھیان رکھ
ہر چوک پر فسانۂ رنج و الم نہ چھیڑ
اُس کی نہیں تو اپنی ہی کچھ آن بان رکھ
پردہ ہو جس سے فاش کسی کا وہ سچ ہی کیا
ہر ایک لب پہ ایک نئی داستان رکھ

0
85
قلب کی گہرائیوں میں بھی کہاں امکان تھے
دوریاں اُن سے ہوئی ہیں جو عزیزِ جان تھے
ٹھوکریں کھا کر سمجھ آئی کہ سچ کہتے تھے وہ
جو گناہ پر ٹوکتے تھے پر ہمیں نادان تھے
کر لیا ترکِ جہاں جن کے لئے اے اہلِ دِل
کچھ تو سوچو وہ بھی تو مِٹّی کے ہی انسان تھے

0
100
دیکھ کر میرا سراپا پھیر لی ایسے نظر
کوٹھیوں کے بیچ ہو جیسےکسی مفلس کا گھر
جانتا تھا مَیں کہ اس کی سلطنت کو ہے زوال
پر کبھی سوچا نہ تھا مارا پھرے گا در بدر
ہر کہہ و مہہ پر تغیّر ہے یقیناً بالیقیں
پر غریبوں کے نصیبوں میں وہی شام و سحر

0
102
لُٹ گئے سر و سمن صیّاد نے دھوکہ دیا
ہم دعا کرتے رہے فریاد نے دھوکہ دیا
ہو گئے بدمعاش پھر قابض فصیلِ شہر پر
آج کے فرعون نے شدّاد نے دھوکہ دیا
چھوڑ کر تیری کمیں گاہ دشمنوں سے جا ملے
ایک دو کی خیر ہے افراد نے دھوکہ دیا

0
91
گزارشِ احوال
معاشرے اور تہذیب وتمدّن کے بنانے سنوارنے میں جہاں سیاسی اور عمرانی زعما کا حصّہ رہا ہے وہاں کسی بھی معاشرے کی ترقّی و ترویج میں شعرا،نثّار اور ادبا نے بھی علم کی چاشنی کے ساتھ ساتھ اپنے افکار و خیالات سے نہ صرف قوموں اور ملکوں کی رہنمائی کی بلکہ اپنے موقلم سے زمانے کو لطیف جذبات سے نوازا بھی اور جہاں اسکی اقدار ناپید ہوئیں وہاں اسکی نیو بھی رکھّی اور پھر اسے پروان بھی چڑھایا بلکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ جب بھی دنیا میں معاشی اور معاشرتی اونچ نیچ اپنی انتہا کو پہنچ گیا (یوں تو یہ تفریق ہمیشہ رہی ہے)تو یہی وہ لوگ تھے جو اپنی کم مائیگی اور بے سروسامانی کے باوجود خم ٹھونک کر میدان میں آئے اور بسا اوقات ایسا ہؤا ہے کہ ایک فرد یعنی محض ایک آدمی نے تاریخ کا دھارا بدل دیا مگر یہ سب کچھ آناً فاناً یا پلک جھپکنے میں نہیں ہو گیا بلکہ اسکے لئے انہوں نے بھی اور انکے رفقا نے بھی وہ وہ مصائب برداشت کئے کہ آج ان کا تذکرہ بھی محال لگتا ہے اور ایسا بھی ہؤا ہے کہ ان لوگوں کو اپنی زندگی میں اپنی تگ و دو آگے بڑھتی نظر نہ آئی مگر اسکے باوجود وہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور پھر دنیا نے انکے جانے کے بعد انکی کاوشوں کو یوں سراہا کہ آج اگر ہم کسی بڑے آدمی کی سوانح عمری پڑھتے ہیں تو اکثریت ان لوگوں کی ملے گی جنہیں ان کی موت کے کافی عرصے بعد posthumously ایوارڈز اور بڑے بڑے تمغوں سے نوازا گیا جیسے مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا اور فیض احمد فیض اور سر اقبال رح رابندر ناتھ ٹیگور مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا مودودی رح وغیرہ وغیرہ اور ان سارے مشاہیر میں اکثریت صاحبِ علم و قلم کی ہے گویا قلم وہ طاقت ہے جس نے بڑے بڑوں کی گردنیں جھکا دیں اور اپنے زورِ قَلَم پر مروجّہ فرسودگی کے رُخ موڑ دئے
میری اس ساری تمہید کا اصل مقصد یہ ہے کہ آج بھی معاشی اور معاشرتیّ اور امیر غریب کی خلیج اتنی بڑھ چکی ہے کہ کوئی اس طوفانِ بد تمیزی کو روک نہیں سکتا بلکہ روکنا چاہتا نہیں کیونکہ اہلِ قلم،گستاخی معاف، اپنی ذِمّے داریاں پوری نہیں کر رہے مگر آپ یہ نہ سمجھیں کہ مَیں سبھی کی نفی کر رہا ہوں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے مگر یہ کہ بہت تھوڑے مشاہیر ایسے ہیں جنہوں نے علمِ بغاوت بلند کیا مگر بہت تھوڑے بھی ہیں اور مذکورہ خلیج کو پاٹنے کی کوشش بھی نہ ہونے کے برابر
ابھی کچھ دن پیشتر میری لاہور کے ایک نمائندہ شاعر سے بات ہوئی تو مَیں نے انہیں دوستانہ انداز میں یاد کرایا کہ آپ کی شاعری کو کافی لوگ پڑھتے ہیں تو آپ اپنی غزلوں میں معاشی اونچ نیچ کا ذکر کیوں نہیں کرتے تو کہنے لگے کہ یہ مسائل غزل کی حدود میں نہیں آتے بلکہ کہا کہ مَیں غزل کو غزل ہی رکھنے کے حق میں ہوں کیونکہ اگر اسمیں دوسرے مسائل کا ذکر کیا گیا تو اسکی ہیئت بھی بدل جائے گی اور غزل کے
ساتھ ظُلم بھی ہو گا تو معاً میرے دل میں خیال آیا کہ جو پوری نسلِ انسانی پر ظلم ہو رہا ہے اس کا کوئی آپ کو غم نہیں
احمد فراز مرحوم نے کیا خوب کہا ہے کہ :

0
32
کتاب نام : صرف چشمِ تر نہیں
مصنّف : امید محی الدّین خواجہ
khawajaumeed@gmail.com
موبائل/واٹس اپ : 622905498 0031
ایڈریس : castor 2 3902 sh Veenendaal NL

0
74
سکوتِ شہر سے مجھ کو گماں ہوتا ہے محشر کا
ادھر مسجد شکستہ ہے اُدھر مینارہ مندر کا
مَیں اکثر سوچتا رہتا ہوں لاینحل مسائل پر
وہی انسان احسن ہے وہی باغی مصوّر کا
لطافت ہو گئی ناپید رشتوں کے تقدّس سے
زباں کی تلخیاں ایسی گماں ہوتا ہے خنجر کا

0
95
آنسوؤں کا کام ہے رونا تو رونے دو انہیں
تھک کے رک جائیں گے داغِ دل تو دھونے دو انہیں
ایسے بھی کچھ لوگ ہیں جو عمر بھر سوئے نہیں
اب خدا کے واسطے قبروں میں سونے دو انہیں
توڑ دی رشتوں کی مالا سب رقیبوں نے تو کیا
وہ جو کچھ ہمدرد ہیں مِل کر پرونے دو انہیں

0
182
مجھ کو خموشیوں کا بڑا مشورہ دیا
اور آپ اپنے راز سے پردہ اُٹھا دیا
کوئی نہیں وہ اور بس ربِّ قدیر ہے
اُس کو گرایا اِس کو پکڑ کر اُٹھا دیا
جس کی اساس پانی کی اک بُوند ہے اسے
لوگوں نے مکر و فن سے سروں پر بٹھا دیا

7
162
عارضے بڑھتے گئے اور نیند کم ہونے لگی
دیکھ کر اپنا سراپا آنکھ نم ہونے لگی
جن اجالوں پر بنی آدم کو تھا فخرو غرور
وہ ضیائے نور تاریکی میں ضم ہونے لگی
مَیں نے دلبر کی نہ تھی تیری شکایت حشر میں
میری حالت سے کہانی خود رقم ہونے لگی

0
90
تَوسنِ فکر پہ مہمیزِ سخن آیا نہیں
تُو ہے وہ چاند کبھی جس پہ گہن آیا نہیں
آندھیاں آڑ بنیں راستے دیوار ہوئے
عزم ایسا کہ کبھی رنج و محن آیا نہیں
دولت و حشمت و ثروت سے رہا بالا مقام
تیرے رستوں میں کبھی لعلِ یمن آیا نہیں

0
109
اُس نے بھُلا کے مجھ پہ یہ احسان کر دیا
سفرِ حیات کو بہت آسان کر دیا
لگتی رہیں ہر ایک سے خوش گپیاں مگر
دیکھا مجھے تو جان کر انجان کر دیا
کوٹھی بنائی کہنے لگے آپ کے لئے
پھر مجھ کو واں پہ حاجب و دربان کر دیا

2
86
بند کمرے میں چلی آئی مَیں کچھ نہ کہہ سکا
مَوت آ پہنچی تو ہر تدبیر نے دھوکہ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹے کی جان کے لئے ماں بھینٹ چڑھ گئی
آنکھوں کی شرم رنگِ حنا کچھ نہیں بچا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0
86
تم نے بھلا دیا تو کیا سارا جہان ہے
تیری زمین ہے نہ ترا آسمان ہے
جو چوٹ تیرے ہجر میں کھائی تھی یاد ہے
تم کو نظر نہ آئے گی دل پر نشان ہے
جو پیڑ سایہ دار تھا وہ خشک ہو گیا
مجھ کو جنون تھا وہ مرا سائبان ہے

0
1
112
نائبِ یزداں ہوں لیکن کیا کہوں
ہو چُکا ناپید واللہ سب سکوں
ظلم و استبداد کا عالم کہ اب
فطرتِ آدم ہوئی خوار و زبوں
بیچتے ہیں لوگ اپنی بیٹیاں
پیٹ میں روٹی ہے نا جسموں میں خوں

0
81
تھوڑا انصاف کرو غلطیاں معاف کرو
پہلے بھی کرتے رہے آج بھی الطاف کرو
مَیں بھی دنیا میں ہوں دنیا کے رواجوں کی طرح
زخمِ بھی تُم نے دئے ہیں تو تمہی صاف کرو
لُوٹ کر قوم و وطن ڈھیر لگائے زر کے
باپ کا مال ہے دل کھول کے اسراف کرو

0
105
جو آج ہے آواز وہ شاید نہ سنوں پھر
اور اپنی بھی آواز کو پہنچا نہ سکوں پھر
اک بار ہی سننے کی سزا جھیل رہے ہیں
اک بار اگر اور کہا کُن فیکوں پھر
سپنے میں انہیں دیکھ کے گھبرا سا گیا مَیں
گر سامنے آ جاتے تو کیا کرتا جنوں پھر

0
65
چھوڑا ہے جس نے راستے میں اس کا کیا قصور
میرے نصیب میں ہی ازل سے رہا فتور
یہ اشتہا ہی تھی تجھے سر پر بٹھا لیا
ورنہ تو سچ یہی ہے تُم بھی نا پری نا حُور
مشہور ہو گئے ہو تو مُوسیٰ کو دو دعا
ورنہ کوئی نہ جانتا تجھ کو اے کوہِ طُور

0
136
اللہ کا کرم ہے تری محنت کا صِلہ ہے
بھارت کے تکبّر کا جگر چیر دیا ہے
اک دن تجھے بابر نے ہی مغلوب کیا تھا
اب بابر اعظم کا مزہ چکھ ہی لیا ہے
چھ سات کی میدان سے ہی چھُٹیّ کرائی
جو شیر تھا میدان میں بھی شیر رہا ہے

0
78
مرے بچّے مرے دل کے ارادے جان لیتے ہیں
مَیں دن کو رات کہہ دوں رات کو دن مان لیتے ہیں
انوکھا راج ہے تیرا نرالی سلطنت تیری
ترے چمچے ہر اک مسلم پہ خنجر تان لیتے ہیں
کسی سے مانگنے سے عزّت و توقیر گھٹتی ہے
بہت کم ہیں جو دانستہ کوئی احسان لیتے ہیں

0
79
لکھ رہے ہو کب سے لیکن کیا ہؤا حاصل امید
راستے مسدود ہوں تو پھر کہاں منزل امید
وہم لگتا ہے کہ ہم سارے بنی آدم ہیں دوست
گلستاں ویران ہے اب رہ گئے جنگل امید
چاک کر ڈالی نَفَس نے نسلِ آدم کی قبا
پھنس گئے گرداب میں اور دُور ہے ساحل امید

0
208
جس نے دیکھا تجھے وہ فنا ہو گیا
حُسن والوں کا صدقہ ادا ہو گیا
مجھ کو ہر گام پر سجدے کرنے پڑے
کیا کریں جب زمانہ خدا ہو گیا
بیٹا کہتے ہوئے جس نے آواز دی
مَیں اسی ماں پہ دل سے فدا ہو گیا

0
96
انہیں ناراض ہونا ہو تو مجھ کو خواب آتا ہے
کہ جس کمرے میں رہتا ہوں وہ زیرِ آب آتا ہے
تری محفل میں سنتے ہیں اسی کی آمد آمد ہے
وہ جس کی دید کو ہر آدمی بے تاب آتا ہے
شناساؤں نے گو ترکِ تعلق کر لیا مجھ سے
مرے حسنِ غزل کو دیکھنے مہتاب آتا ہے

0
66
مجھ سے عجیب ہاتھ مرا پِیر کر گیا
میری زمیں پہ اپنا گھر تعمیر کر گیا
رہتا ہے اس گلی میں جسے ڈھونڈتے ہیں آپ
آ کر کسی نے موڑ پے تحریر کر دیا
ٰذی مرتبہ حسین تھے ذی مرتبہ رہے
جو کوئی بھی نہ کر سکا شبّیر کر گیا

0
162
چھیڑو نہ فسانے محمل کے اور بات کرو انسانوں کی
چپُّو نہ چلاؤ ساحل پر اور فکر کرو طوفانوں کی
بھگوان کے پاس تو وقت نہیں انسان بھی گونگے بہرے ہیں
یہ دَور ہے پتھّر کا لوگو یاں کس کو قَدَر ارمانوں کی
وہ دیکھو کُٹیا کے اندر اک جانِ سوختہ لیٹی ہے
جو رام کے واسطے دیتی رہی پر کون سنے بھگوانوں کی

120
روکتی ہیں عمر کی مجبوریاں
ورنہ خاطر میں نہ لاتا دوریاں
خواب میں بھی یہ کبھی سوچا نہ تھا
مجھ سے پہلے پونچیں گی بیساکھیاں
بے سبب تجھ کو گلہ ہے پھول سے
نا ہی ویسے پھول ہیں نا تتلیاں

0
125
مرے خیال میں اب تک وہ بات ہے باقی
کہا تھا چاند نے جس وقت رات ہے باقی
عبور کر لئے کتنے ہی پُل زمانے کے
سنبھل اے دل کہ ابھی پُل صراط ہے باقی
جو ڈرنے والے تھے ہر لغو سے بچے ہی رہے
کہا سرور نے عیش و نشاط ہے باقی

0
78
آ رہی ہے رات تو کچھ غم نہیں
وہم ہے اس کو کہ ہم آدم نہیں
جن کے پہلو میں گزارے رات دن
ساتھ ہی رہتے ہیں پر باہم نہیں
کیوں کسی کی برملا تحقیر ہو
ابنِ آدم آدمی سے کم نہیں

0
57
کچھ نہیں میرے لئے اب اُن کے پاس
اِلّا یہ کہ اور کر جائیں اداس
کیا کبھی سوچا ہے تم نے جانِ مَن
کون ہیں یہ لوگ تیرے آس پاس
زندگی جس کی کٹی خُدّام میں
جھونپڑی کیسے اسےآئے گی راس

0
106
شرارت کی تھی آنکھوں نے سزا پائی مرے دل نے
مجھے مبہوت کر ڈالا ترے نینوں کے کاجل نے
کناروں سے نکلتی مضطرب موجوں کی جولانی
بہت زوروں پہ ہے پانی دیا پیغام ساحل نے
بہت سے منزلوں کی جستجو میں عمر بھر بھٹکے
بہت تھوڑے ہیں جن کو آ کے خود ڈھونڈا ہے منزل نے

0
177
بھُولنا چاہتا ہوں لیکن اتنا بھی آساں نہیں
جتنے شکوے ہیں مرے لفظوں میں اتنی جاں نہیں
مَیں یہی سمجھا تھا اُن سے ختم ہوں گی رنجشیں
پر مرا ادراک ہے اب اس کے بھی امکاں نہیں
جس نے بچّوں کے لئے بے لَوث قربانی نہ دی
وہ ولی اللہ تو ہو سکتی ہے لیکن ماں نہیں

0
79
کیا حُسنِ مجسّم ہے عجب زہرہ جبیں ہے
اس عمر میں بھی دیکھ لو ویسی ہی حسیں ہے
قسمت کے جلَو میں ہیں تغیّر کے مباحث
ہاتھوں کی لکیروں کو غَرَض اس سے نہیں ہے
قرآن کا اطلاق گر آدم پہ ہے پھر تو
فردوسِ بریں دَور بہت دِور کہیں ہے

0
113
پھول رنگیں نہ سہی خوشبو ضروری ہے امید
ابرُو کالے ہوں نہ ہوں گیسُو ضروری ہے امید
دھیان سیرت پر بھی ہو لیکن نہ واللہ اس قدر
اندروں کی خیر ہے خوش رُو ضروری ہے امید
ہاتھ تو اُٹھے ہیں سائل پر دعاؤں کے لئے
صرف چشمِ تر نہیں آنسو ضروری ہے امید

0
85
وہ پوچھتے ہو جس کا مجھے علم نہیں ہے
جن گلیوں میں رہتا ہوں صنم تُو بھی وہیں ہے
وہ جس کو کبھی حُسنِ خداداد پہ تھا زعم
وہ آ کے یہاں دیکھ لے ہر چیز حسیں ہے
مسند سے رہی دیر تلک جس کی رقابت
اب خود بھی بڑی شان سے سجّادہ نشیں ہے

0
204
شام و عراق و افغان
مَیں اکیلا ہی نہیں سب ابنِ آدم ہیں یہاں
اُٹھ رہا ہے ہر مکاں ہر قصر سے کالا دھواں
اب سروں کو جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں ساتھ ساتھ
لاشوں پر تعمیر کرنے شہر کوچے بستیاں
گر کبھی دیکھے نہیں ہیں لشکرِ اِبلیس تو

0
72
سب پُوچھتے ہیں نام کبھی کام نہ پُوچھا
آگاہ تھے آغاز سے انجام نہ پُوچھا
ہیں یاد مجھے آج بھی یارانِ قدح خوار
مَیں بھول گیا نام کبھی نام نہ پُوچھا
لا عِلم رہا رشتوں میں دولت کے عَمَل سے
شاعر ہوں اسی واسطے سے دام نہ پُوچھا

166
گلشن ہے باغ ہے نہ چمن پر نکھار ہے
جس سمت دیکھتا ہوں فضا سَوگوار ہے
کل تک جنہیں ہر آن تھا بس میرا ہی جنوں
اب تو انہیں کو شکل مری ناگوار ہے
پھولوں پہ رنگ ہے نہ ہے کلیوں پہ تازگی
یہ کیسا باغبان ہے کیسی بہار ہے

0
61
اب کے اُس نے جو نہ ملنے کی قسم کھائی ہے
وہ سمجھتا ہے مری جان پہ بن آئی ہے
دیلھ کر میری ہتھیلی کی لکیریں قسمت
ان گِنَت بار مرے خواب میں شرمائی ہے
ایک فانی پہ دل و جان لُٹانے کا صِلہ
اس سے اچھّی تو کسی قبر کی تنہائی ہے

0
83
تُم غَلَط سمجھے وہاں پر مَیں نہ تھا
مجھ پہ غُصّہ ہے تمہارا بے وجہ
وہ جنہیں تم سے کدورت ہے صنم
میرا اُن لوگوں سے کیسا واسطہ
خبرِ بد چھوڑی رقیبوں نے کہیں
اور تُم نے پڑھ لی میری فاتحہ

0
162
چھین کر دل کا سکوں کہتے ہو تیری خَیر ہو
کاش سمجھائے کوئی اپنے ہو تُم یا غَیر ہو
دیکھ کر ان کا سرِ محفل نگاہیں پھیرنا
یوں لگا مجھ کو ہمارے درمیاں کچھ بَیر ہو
میرے منہ میں خاک پر اکثر ہیں ان میں دھوکے باز
چاہے وہ بت خانہ ہو مسجد ہو چاہے دَیر ہو

0
109
مجھ کو برباد کسی اور کو آباد کیا
اب مجھے بھُول جا جاتے ہوئے ارشاد کیا
دولت و جاہ ہی کیا کم تھی جو اک اور بھی فرق
مجھ کو اک عام سا اور اس کو پری زاد کیا
ڈال کے زنداں میں معصوموں کے پر کاٹ دئے
پھر کہا مالی نے جاؤ تمہیں آزاد کیا

0
73
اُجڑی ہوئی محفل کے سِتَم دیکھ رہا ہوں
کیا لکھتے رہے اہل قَلَم دیکھ رہا ہوں
کیا عادتِ بد میرے وَطَن کی ہے خدایا
ہر بات پہ کھاتے ہیں قَسَم دیکھ رہا ہوں
اک باپ کے کندھوں پہ جواں بیٹے کی میّت
اُٹھتے ہوئے مایوس قَدَم دیکھ رہا ہوں

215
کس طرح غزلیں لکھوں مضمون سےرغبت نہیں
اس زمیں پر گھر نہیں ہے آسماں کی چھت نہیں
دیکھ کر افلاس غُربت عسرتیں حِزن و ملال
کیا کروں واللہ کہ ان صدموں سے ہی فرصت نہیں
امتیازِ غربت و دولت ہے اک ایسی خلیج
جس کو کم کرنے کی شاید اب کوئی صورت نہیں

0
94
آپ شافع ہیں اور مَیں گنہ گار ہوں
سخت عاصی ہوں مولا خطا کار ہوں
عمر کاٹی ہے جیسے سرِ دار ہوں
معترف ہوں کہ واللہ سیاہ کار ہوں
یہ بھی احساس ہے کہ سزاوار ہوں
اپنے عصیاں پہ لیکن شرم سار ہوں

0
97
درد و غم ہے عسرتیں آلام ہیں
اس زمیں پر بس یہی انعام ہیں
کامیابی چند لوگوں کے لئے
باقی سارے با خدا ناکام ہیں
پل رہی ہیں اشتہا کی گود میں
عصمتیں ہر چوک پر نیلام ہیں

0
87
اے تلخئی ایّام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
جینا ہؤا الزام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
کل تک تو بھرے شہر میں چرچا رہا جس کا
اب ہو گیا گمنام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں
جس در پہ پدھاری ہیں وہ نا چیز کا گھر ہے
رُک جائیے مادام مَیں کچھ سوچ رہا ہوں

0
85
اے لوگو ہم کو دوش نہ دو کیا ہم نے عشق ایجاد کیا
ہم سیدھے سادے لوگ تھے بس اک صورت نے برباد کیا
یہ عاشق بُلبل و فاختہ ہیں خود جال کے اندر پھنستے ہیں
جب پنجرے تک بات آ جائے پھر ہم دم کو صیّاد کیا
یاں اور بھی مشغلے ہیں یارو یاں اور بھی کام ہیں کرنے کے
کیوں اس چکّر میں پڑ کے اپنے آپ کو یوں ناشاد کیا

0
86
اس شہر کے ہر گھر میں عجب آگ لگی ہے
جس کو بھی ٹٹولو گے اسے اپنی پڑی ہے
ہر چند کہ خورشید و قمر جلوہ نما ہیں
آدم کے مقدّر میں وہی تیرہ شبی ہے
خائف ہیں ابھی اس لئے تالے ہیں زباں پر
اک آگ ہے جو وقت کے سینے میں دبی ہے

0
197
چل رہے ہیں جس ڈگر پر اس کی منزل ہی نہیں
ایسی ضد کا فائدہ کیا جس کا حاصل ہی نہیں
کیا کوئی ایسے سمندر سے بھی رکھّے گا امید
جس سمندر کا جہاں میں کوئی ساحل ہی نہیں
چھوڑ کر کشتی بھنور میں ناخدا کہنے لگا
ڈوبتی ہے ڈوب جائے میَں تو شامل ہی نہیں

212
تھم گئی ہیں وقت کی نبضیں قیامت آ گئی
ابنِ آدم کی مجھے لگتا ہے شامت آ گئی
کون ہوں کس دیس سے آیا ہوں مَیں کس کو پتہ
آپ آئے تو مرے قد میں بھی قامت آ گئی
ابتدائے عشق میں تھا کچھ تلوّن آشنا
ٹھوکریں پڑتی گئیں تو استقامت آ گئی

102
گزاری ہے جہاں جیسی شبِ ہجراں میں گزری ہے
کبھی دنیا کی آندھی میں کبھی طوفاں میں گزری ہے
نہ کوئی کارنامہ ہے نہ کوئی داستاں اپنی
جو سچ کہہ دوں تو لگتا ہے کسی زنداں میں گزری ہے
کسی کو ساتھ لے لیتا کسی کے سنگ ہی چلتا
ادھیڑ و بُن کی دلدل میں غمِ انساں میں گزری ہے

2
81
پھول ہیں کلیاں ہیں لیکن باغباں کوئی نہیں
ہم سفر ہیں ہم نوا ہیں رازداں کوئی نہیں
جیت لی توپوں نے بازی مار کر انسان کو
بچ گیا بارود لیکن بستیاں کوئی نہیں
کیا ہؤا ہے آسماں کو رنگ پھیکا پڑ گیا
چاند ہے تارے بھی ہیں پر کہکشاں کوئی نہیں

0
69
دیکھ آ کر ماں کہ تیری قبر پر آیا ہے کون
قلب و جاں کے ساتھ آنسو درد کے لایا ہے کَون
چھوڑ کر تُم کیوں بھلا اک ننّھے سے معصوم کو
کر گئیں ہر پیار سے نا آشنا محروم کو
مجھ سے پہلے بھی مرے بھائی بہن پیدا ہوئے
وہ بھی تو ایسے ہی تیرے پیار کے شیدا ہوئے

0
196
ہو گئے ایسے پشیمان کہ بس
لے گئیں تہمتیں یوں جان کہ بس
میزباں بننے سے توبہ کر لی
اس قدر آئے ہیں مہمان کہ بس
شین اور قاف کی چونچ پر
آکے یوں بیٹھ گئی عین کہ بس

0
98
کوزہ گری کا شوق تھا پورا نہ ہو سکا
مِٹّی تو جاندار تھی دانے نہ بو سکا
ماضی کی یادیں زندگی کا روگ بن گئیں
کل بھی کچھ ایسی رات تھی پل بھر نہ سو سکا
اوپر تلے کے حادثے بے حِس بنا گئے
مرگِ جوان پر بھی دل مطلق نہ رو سکا

0
85
دیکھ کر مجھ کو انہیں یکدم پسینہ آ گیا
اپنی حالت یہ کہ اک مُردے کو جینا آ گیا
عشق کی دشوار گھاٹی پر پھٹے ملبوسِ تن
گرچہ ہم درزی نہ تھے پر چاک سینا آ گیا
یہ ہماری کم نصیبی تھی کہ رندوں کی دعا
کل ہی چھوڑی تھی کہ ساون کا مہینہ آگیا

0
84
ہر گھڑی مجھ کو یہی اک وہم دامن گیر ہے
یہ جہاں اس کا ہے جس کے خواب کی تعبیر ہے
چند سِکّوں کے عوض کیوں بیچ ڈالا وہ بدن
جو کبھی شوہر کا تھا اب غیر کی جاگیر ہے
خال کے تِل سے من و تُو کا تصوّرمِٹ گیا
یہ ہے واحد تیرگی جو سب کو ہی اکسیر ہے

0
73
تم نہیں آئے مگر سارا زمانہ آ گیا
بجلیوں کی زد میں میرا آشیانہ آ گیا
جو بُنا کرتے تھے لوگوں کی کہانی رات دن
آج اخباروں میں ان کا بھی فسانہ آ گیا
رنگے ہاتھوں چوریاں کرتے ہوئے پکڑے گئے
ایک دو کا ذکر کیا سارا گھرانہ آ گیا

0
144
روک لیتا ہوں زباں کو دل نہ دُکھ جائے کہیں
جس طرح کا مَیں مکیں ہوں وہ بھی ایسے ہی مکیں
عمر ہے باسٹھ برس کی لیکن اپنے آپ کو
پیش کرتی ہیں کسی محفل کی شمعِ نازنیں
بات کرنے پر جو آ جائیں تو رُکنے کے نہیں
کتنا ہی شور و شغب کرتے رہیں گو سامعیں

0
194
تصویرِ یار یوں مرے دل میں رہا کرے
انگشتری میں جیسے نگینہ جڑا کرے
جس عاشقِ جاں باز کی جاں ہو عذاب میں
وہ کوئے یار جا کے اذانیں دیا کرے
روشن کرو تو عالمِ تیرہ کو اس طرح
جیسے ردائے صبح کو روشن ضیا کرے

0
149
میری زبان بند ہے ہر ایک کی نہیں
لوگوں کے لب پر آ گئی تو پھر رکی نہیں
اک عرصے بعد دیکھ کر ان کو مری نظر
ٹھٹکی تھی چند ساعتیں لیکن جُھکی نہیں
رندانِ بادہ خوار ہوں یا مفلس و غریب
سارے ستم رسیدہ ہیں کوئی سُکھی نہیں

0
110
روک لے اللہ مری کُٹیا پہ بجلی کا جلال
تیرے وعدوں پرگزارے زندگی کے ماہ و سال
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل
اور مَیں راہوں میں آوارہ جنونی خستہ حال
اچھّا ہے عاشق نہیں ہوں کیا ملا عشّاق کو
دیکھ لو کیسی درخشندہ ہے رانجھے کی مثال

2
219
مرے وجود پہ نقشِ کہن کے لاشے ہیں
مری زبان پہ تشنہ لبی کے افسانے
مرے غنیم کو عقل و خِرد کا ہیضہ ہے
اسے خبر نہیں کس حال میں ہیں دیوانے
مَیں رات ہوں مری تقدیر میں ہے تیرہ شبی
کبھی چڑھے گا دِن یا نہیں سحر جانے

0
107
رات تو تیرہ تھی لیکن دن بھی اب تاریک ہے
یا اگر کچھ فرق باقی ہے تو بس باریک ہے
بے سبب غیروں کی باتوں میں نہ یوں آیا کرو
مَیں تو ہوں نزدیک تر تُو اور بھی نزدیک ہے
جب کبھی غُصّہ انہیں آئے تو واللہ صبر کر
کیونکہ یہ غُصّہ نہیں ہے چاہتوں کی بھیک ہے

0
111
ریت کی دیوار تھا مَیں گِر گیا تو کیا ہؤا
بے وفا کی دوستی میں باوفا رُسوا ہؤا
چھوڑ کر رستے میں مجھ کو ناخُدا کہنے لگا
ڈھونڈھ لینا راہ میں تِنکا کوئی بہتا ہؤا
وہ لڑکپن کی بہاریں مستیاں شور و شغب
کس طرح بھولے گا دل سے دَور وہ گزرا ہؤا

2
230
وہ وفائیں مری آزماتے رہے
ہم بھی دانستہ ہر زخم کھاتے رہے
مَیں ادھر قصۂ غم سناتا رہا
وہ اُدھر زیرِ لب مسکراتے رہے
ہم تو اپنی وفاؤں پہ نازاں رہے
وہ بھی اپنی جفائیں نبھاتے رہے

0
115
آواز دے رہا ہوں اجالوں کو دیر سے
گزرے ہوئے مہینوں کو سالوں کو دیر سے
تم کون ہو کہاں سے ہو کیا ذات پات ہے
فرسودہ و بے کار سوالوں کو دیر سے
کوئی نہیں جو تیری صدائوں کو سُن سکے
سُب جانتے ہیں تیرے خیالوں کو دیر سے

0
142
اے گردشِ زمانہ مری بات مان لے
اب آخری لبوں پہ ہے یہ جان جان لے
جس نے کبھی خود اپنے لئے کچھ نہیں کیا
تم ہی کہو کیوں اس کی خبر آسمان لے
جو اپنے دل کی بات کسی سے نہ کہہ سکے
وہ غم گسار خالقِ اعلیٰ کو مان لے

0
112
آیا تھا پھر سے خواب دکھا کر چلا گیا
مَیں نیند میں تھا مجھ کو جگا کر چلا گیا
کن حسرتوں سے مَیں نے بنایا تھا جھونپڑا
کتنا بے داد گر تھا گرا کر چلا گیا
دنیا ترے فریب کا پردہ ہؤا ہے چاک
اس وقت جب تُو بجلی گرا کر چلا گیا

0
115
دیکھ کر تصویر میری پھیر لی اس نے نظر
خیریت گزری وہاں پر مَیں نہ تھا بارِ دِگر
غیر کے کہنے پہ مجھ سے بے سبب ناراض ہو
جبکہ مَیں ایسا نہیں جس نے چلائی تھی خبر
چل رہی ہے نسلِ نَو اُس خاص طرزِ فکر پر
نا کوئی منزل ہے جس کی نہ کوئی رستہ نہ گھر

0
77
کب سے ہے مرے دل میں اسی بات کا ڈیرا
راتوں پہ جوانی ہے تو کیوں بُوڑھا سویرا
آ جاؤ مرے ساتھ سبھی مل کے صدا دیں
جو میرا ہے اے دوست وہی دکھڑا ہے تیرا
جو شخص تمہیں دیتا ہے ہر روز دلاسے
آدم کے لبادے میں وہ انساں ہے لٹیرا

0
160
کون کہتا ہے کہ ہم سایۂ دیوار میں ہیں
سچ تو یہ ہے کہ سبھی دشمنِ آزار میں ہیں
حضرتِ شیخ کو ہے ایک فضیلت حاصل
رام کر سکتے ہیں کہ صاحبِ گفتار میں ہیں
سارے عشّاق میں ہے جانے رقابت کیسی
ایک منزل کے مسافر ہیں رہِ خار میں ہیں

0
138
کسی کروٹ نہیں ہے چین یارو
سنائی دے رہے ہیں بَین یارو
بڑی روشن ہیں گو سُورج کی کرنیں
مگر ہر سُو اندھیرا رَین یارو
تکلّف ہے سراسر رشتے داری
بناوٹ آ گئی مابَین یارو

0
116
ہے انتظار کب سے چاہے دن ہو رات ہو
وہ وقت آئے جب ترے ہاتھوں میں ہاتھ ہو
ماضی میں جھانکنے دے مجھے تیز گامِ زیست
شاید کہیں سلیٹ ہو تختی دوات ہو
جس بد نصیب ماں کی کہیں جیب کٹ گئی
ممکن ہے اسکی صرف یہی کائنات ہو

74
مِنّتیں کرنے سے اس کو بھول جانا ٹھیک ہے
تاکہ وہ بھی جان لے پیچھا چھڑانا ٹھیک ہے
روٹی کھانے کو نہیں اور برتھ ڈے کا شوق ہے
ان کو پیدائش نہیں برسی منانا ٹھیک ہے
گرچہ پہلی سی رفاقت تو نہیں پھر بھی ذرا
گاہے گاہے راہ میں ملنا ملانا ٹھیک ہے

0
70
جیت گئے مظلوم وہاں کے آخر ظالم ہار گیا
تیرا تکبّر تجھ کو مودی دوزخ اندر گاڑھ گیا
بی جے پی نے تجھ سے مل کر کتنے لاشے بچھوائے ہیں
آنکھ اُٹھا کر دیکھ اُدھر بھی لاشوں کا انبار گیا
ہاتھوں میں کشکول اٹھائے گائے گا جھولی پھیلائے
اس سے اچھّی چائے تھی اب وہ بھی کاروبار گیا

0
88
اس طرح روٹھ کے جاؤ گے تو مشکل ہوگی
طعنِ اغیار میں رسوائی بھی شامل ہو گی
دن گزر جاتا ہے پر رات کچھ خَوف زدہ
کیا خبر آج بلا کونسی نازل ہو گی
صبح ہو لینے دو رات بھی کالی ہے ابھی
بے سبب تیرہ شبی رستوں میں حائل ہو گی

0
78
مجھکو خدشہ ہے مجھے چھوڑ نہ جاؤ اک دن
ورنہ اتنا تو کرو پیار سے چاہو اک دن
وہ جو اک گیت مرے پیار میں گایا تھا کبھی
آؤ اور آ کے مرے سامنے گاؤ اک دن
مونہہ پہ لاتے ہوئے ڈرتے ہو اگر دل کی زباں
اچھّا چوری سے کبھی آنکھ ملاؤ اک دن

0
159
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
اگر کوئی رُوٹھے تو جا کر مناؤں
کہاں تجھ کو ڈھونڈوں کہاں تجھ کو پاؤں
وہی آسماں ہے وہیں پر زمیں ہے
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

0
10
808
بھول جانے پر بھی مجھ کو یاد آ جاتے ہو تُم
سامنا ہو جائے تو مِلنے سے کتراتے ہو تم
گر اچانک راہ میں مل جائیں تو پھر یک بیک
چھوڑ کر میری ڈگر راہوں سے ہٹ جاتے ہو تم
زندگی گزری تری لیلائے شب میں ہم وطن
اس لئے خورشید کی کرنوں سے گھبراتے ہو تم

0
232
یہاں غم مفت ملتے ہیں خوشی کے دام لگتے ہیں
مری باتوں میں سچ ہے آپ کو ابہام لگتے ہیں
محبتّ میں جنہیں دکھ جھیلنے آتے نہیں شاعر
مجھے ہر گام ہر منزل پہ وہ ناکام لگتے ہیں
یہ کیسی مسکراہٹ ہے کہ آنکھیں ہو گئیں پُر نم
مجھے ایسی ہنسی میں درد کے آلام لگتے ہیں

0
136
دیکھتی آنکھوں کوئی زہر کو پینے سے رہا
پھٹ گیا عرش تو آدم اسے سینے سے رہا
ہر طرف جُرم کا ناداری و افلاس کا زور
ایسے حالات میں کب کوئی قرینے سے رہا
جس نے ساحل پہ کھڑے رہ کے سمندر دیکھا
علم کیا اس کو کہ وہ دُور سفینے سے رہا

0
63
جو راز اس کے مونہہ سے اچانک نکل گیا
میرے شک و شکوک کو یکسر بدل گیا
کرتے تھے سب دعائیں اٹھا کر فلک کو ہاتھ
برہم ہے آسمان کہ انساں بدل گیا
دیتے ہیں درسِ صبر مساجد میں قبلہ شیخ
یہ صبر نہیں بے بسی ہے جو بھی مل گیا

0
4
192
اکتفا ہر بات پر ممکن نہیں
کیونکہ ہر برسات بھی ساون نہیں
چھپ گئی تصویر ہم دونوں کی ساتھ
ان کو ہو تو ہو مجھے الجھن نہیں
آج تو دیدار ہو گا بالضرور
ورنہ دروازہ نہیں چلمن نہیں

0
2
97
دل کی آواز بجا نقش بہ دیوار بھی دیکھ
مال و دولت ہی نہیں صاحبِ کردار بھی دیکھ
عین ممکن ہے کسی بات میں کچھ جھُول بھی ہو
ہاں مگر دوست کسی دوست کا ایثار بھی دیکھ
ابر آلود نہیں مطلع ابھی دُور تلک
خسِ گرداب میں طوفان کے آثار بھی دیکھ

2
183
جامۂ عقل و خِرد کی نازبرداری کا عشق
تیسری دنیا کی بربادی پہ تیّاری کا عشق
تاخت و تاراج کر کے آدھی دنیا کا سکوں
اور کچھ مقصد نہیں ہے محض سرداری کا عشق
لُوٹ کر کمزور قوموں کا عروج و سلطنت
ان ضعیفوں کی ضعیف المال ناداری کا عشق

0
107
جو بات اپنی اصل میں حد سے گزر گئی
لب پر نہ گرچہ آئی پہ دل میں اتر گئی
پوچھا تھا آج موت سے کب تک ہے زندگی
کہنے لگی حیات ہی بے مَوت مر گئی
کیا حشر میں غریب سے بھی ہو گی گفتگو
کہ زندگی بھی حشر کی صورت گزر گئی

0
97
کہہ رہے ہیں ہم نوا اشعار کہنا چھوڑ دے
تیرنا مشکل ہے تو دریا میں رہنا چھوڑ دے
یا کسی ساحل پہ جا کر اپنا چھپّر ڈال لے
یا تلاطم خیز بن گلیوں میں بہنا چھوڑ دے
یا روا و ناروا کی بحث میں الجھا نہ کر
یا شکم پرور نہ بن اور آب و دانہ چھوڑ دے

2
246
روٹھنا چاہو تو بے شک روٹھ جاؤ شوق سے
مجھ کو بھی پرواہ نہیں ہے آزماؤ شوق سے
اس سے بڑھ کر اور کس کو نام دوں صبرِ جمیل
سب رقیبوں کو سرِ محفل بلاؤ شوق سے
رات کے دامن میں جسموں کی نمائش کی وجہ
پیٹ کی مجبوریاں ہیں گھر چلاؤ شوق سے

0
177
وہ جس سے پیار ہے مجھ کو اسی بستی میں رہتی ہے
ہوا کے دوش پر ہر بات سنتا ہوں سناتی ہے
وحی تو ہو نہیں سکتی مگر الہام باقی ہے
جو میرے لب پہ آ جائے وہی وہ گنگناتی ہے
کبھی دیکھا نہیں مجھ کو کبھی چاہا نہیں مجھ کو
کسی محفل میں مِل جائے تو یوں آنکھیں چراتی ہے

0
153
نوائے درد بڑھ جائے تو آخر نوحہ بنتی ہے
یہی وہ موجِ دریا ہے جو گِر کے پھر مچلتی ہے
جنم سے قبر تک کا فاصلہ از بس کہ چھوٹا ہے
یہ شمع شام سے صُبحِ منوّر تک ہی جلتی ہے
ادھر انسان لمبے لمبے منصوبے بناتا ہے
اُدھر تقدیر اس کی خواہشوں پر ہاتھ ملتی ہے

0
131
زباں پر آئی باتیں کس نے روکی ہیں بتاؤ تو
مجھے تم اچھےّ لگتے ہو ذرا نزدیک آؤ تو
بڑی دلکش ہیں رعنا ہیں دلوں کی بستیاں ہمدم
عیاں ہو جائے گا خود ہی کسی کو دل میں لاؤ تو
بہت مغموم لگتے ہو کہو کیا بات ہے جاناں
کسی کو مان کر اپنا دلی دُکھڑے سناؤ تو

0
173
بھُول کر شکوے غموں کے راحتوں کا کر شمار
صحت اور ایمان ہے اک بحرِ نا پیدا کنار
دولت و شوکت کے لالچ میں گنوا کر عِزّ و جاں
اپنی اصلیت کو انساں کر رہا ہے داغدار
کتبہ پڑھتے ہی کہا اچھّا بچارا مر گیا
پھر دعا کو ہاتھ اٹھائے دیکھ کر میرا مزار

0
110
غم بیچتا ہوں کوئی خریدار گر ملے
امن و سکون وار دوں لاچار گر ملے
گر ہو سکے نہ تیرے غموں کا کوئی علاج
خوشیوں کے مول تول دوں غمخوار گر ملے
رنج و الم سے کیا گِلہ مجھ کو بایں ہمہ
کر لوں قبول شوق سے اک بار گر ملے

115
نعیم عارف ادب کا رازداں ہے
کہانی گو نہیں خود داستاں ہے
خودی کے رازداں سے آشنائی
کرے باتیں تو لفظوں سے عیاں ہے
مکمّل دسترس ہے اپنے فن میں
زبانِ ڈچ کا بھی بحرِ رواں ہے

0
100
عجب اُلٹا سفر ہے تیرے گھر کا
کہ منزل ہے کہیں رستہ کدھر کا
کڑی افتاد دیکھی دل لگی میں
کہ دل کے ساتھ ہی سودا جگر کا
کوئی تحفہ کروں ارسال ان کو
عنایت کر دیں گر سائز کمر کا

0
106
کل بھی گزرا تھا انہی رستوں سے اب تک یاد ہے
آج بھی دل کا نگر کل کی طرح برباد ہے
اس کو پا کر کھو دیا جس کے لئے پیدا ہؤا
ایک بد قسمت کی یارو اس قدر روداد ہے
جو کبھی سوچا نہ تھا وہ کام کرنا پڑ گیا
یہ زمانہ بالیقیں سب سے بڑا استاد ہے

0
82
بادیہ پَیما ہے تو بستی میں رہنا چھوڑ دے
ہمسفر شاہیں کا ہے تو گھر بنانا چھوڑ دے
بے سبب اُلجھا نہ کر بحرِ تلاطم خیز سے
دوستی دریا سے رکھ گلیوں میں بہنا چھوڑدے
ہم نفس کوئی بھی ہو اپنی محبّت سے نواز
سب کے دل کا درد بن اپنا فسانہ چھوڑ دے

0
306
ماں
یہ مرا ایمان میری روح کا احساس ہے
گو تجھے دیکھا نہیں پر ماں تُو میرے پاس ہے
کیسی ہو گی شکل تیری کیا سراپا تھا ترا
ناک آنکھیں ہونٹ چہرہ کیسا ہے ماتھا ترا
آج موقع ہے تو سُن غافل کھڑا پچھتائے گا

0
115
برگ و گُل ہے چاند ہے تارا مرا شایان ہے
ہرکسی کو ہر جگہ پیارا مرا شایان ہے
خوب صورت پھول ہیں مہکار سے مہکے ہوئے
کوئی اس جیسا کہاں نیارا مرا شایان ہے
سارے بچّوں میں اُسے پہچاننا مشکل نہیں
تھُوک میں لِتھڑا ہؤا سارا مرا شایان ہے

0
63
بتائی عمر ساری اس گلی میں
ابھی عمروں کی عادت ہو گئی ہے
*
جھاڑیوں کی اوٹ میں پچھلے پہر کا آفتاب
جیسے مفلس کا بڑھاپا جیسے بیوہ کا شباب
*

0
98
اب یادِ رفتگاں کے سوا کچھ نہیں بچا
چنگ و رباب و نغمہ سرا کچھ نہیں بچا
بیٹے کی جان کے لئے ماں بھینٹ چڑھ گئی
آنکھوں کی شرم رنگِ حنا کچھ نہیں بچا
محشر میں فرقِ ادنیٰ و اعلیٰ ہؤا عیاں
شاہ و گدا و زِلّہ ربا کچھ نہیں بچا

0
50
بیچ کر اپنا مکاں جب بے مکاں ہونا پڑا
اچھّے خاصے آدمی کو خستہ جاں ہونا پڑا
سنتے آئے تھے کہ وہ کافی تلوّن خیز ہیں
جب ذرا پالا پڑا تو ہم زباں ہونا پڑا
کل سرِ محفل کسی نے بات کچھ ایسی کہی
روک تو سکتا تھا لیکن بے زباں ہونا پڑا

0
70
مری سوچوں کو اندازِ نمُو دے
خِرد کو دِل دے دِل کی آرزو دے
جو تِیرہ ہیں انہیں کر دے منوّر
منوّر کو رہِ یثرب کی خُو دے
ممیزّ کر مرے صِدقِ عمَل کو
عَمَل کو عِلم کا جام و سبو دے

0
85
ہزار طوفان بحر و بر میں مزاجِ دریا بھی پر خطر ہے
مجھے ضرر کیوں ہو رنج و غم سے کہ ربِِّ کعبہ کو سب خبر ہے
اگرچہ راہِ وفا سے ہٹ کے مَیں تھک گیا تھا غمِ شرر سے
مَیں مطمئن ہوں زمانے والو کہ قلب و جاں میں نبی کا گھر ہے
اے مومنو حِرزِ جاں بنا لو محمّدّی ہیں نشاں بنا لو
چھٹیں گے بادل ضرور اک دن یہ وعدۂ سیدُّ البشر ہے

0
116
یا تو وقفِ آرزو یا مبتلائے خُو رہے
ہم وہ عاقل ہیں جو دریا میں تلاشِ جُو رہے
زندگی موج و تموّج ہے تو کیوں اس پر ملال
یہ کسی چھپّر کی ہو یا بزمِ رنگ و بُو رہے
آؤ ان گم گشتہ راہوں پر ملیں پھر ایک بار
مَیں جہاں پر مَیں نہ ہوں تُو بھی نہ دلبر تَو رہے

0
109
مجھے چھوڑ کر یونہی راہ میں وہ چلے گئے ہیں تو کیا ہؤا
یہ تو ان کی مرضی ہے جو کریں ولے مَیں نہ اُن سے جدا ہؤا
ہیں جو ماہ و سال رکے رکے یہ گزر ہی جائیں گے ایک دن
یہاں وصل و قرب کا کام کیا یہاں کس کا وعدہ وفا ہؤا
شبِ ہجر گر چہ طویل تھی چلیں جیسے تیسے گزر گئی
یہاں دن کا سورج بھی بارہا رہا بادلوں میں چھپا ہؤا

64
جب ملے تو اتنے قریب کہ غمِ دو جہاں سے گزر گئے
جب الگ ہوئے تو مجھے لگا ترے آستاں سے گزر گئے
رہ حُسن کیا ہے صنم مجھے تری دوستی نے سکھا دیا
جہاں وصل و ہجر میں ٹھن گئی وہاں درمیاں سے گزر گئے
یہ بقائے عشق کا راز ہے رہیں شک شکوک سے ماورا
جہاں ایسا ہونے کو آگیا وہاں رازداں سے گزر گئے

59
مجھے جب سے مُحبّت ہو گئی ہے
بدن سے جان رخصت ہو گئی ہے
جھُکایا سر کو دِل کی آرزو پر
ارے پاگل عبادت ہو گئی ہے
کبھی گر مِل گئے تو طعنے شکوے
عجب ان کی طبیعت ہو گئی ہے

63
ایک عرصے سے مجھے یہ وہم دامن گیر ہے
جو ترے کمرے میں رکھی ہے مری تصویر ہے
سن کے میری داستاں گویا ہوئے مجھ سے خطیب
خواب تو اچھٖا تھا یہ کس خواب کی تعبیر ہے
رات تو گھُپ تھی ہی لیکن کمرہ بھی تاریک تھا
تیرے آنے سے لگا ہر چیز پر تنویر ہے

0
51
جھاڑیوں کی اوٹ میں پچھلے پہر کا آفتاب
جیسے مفلس کا بڑھاپا جیسے بیوہ کا شباب
دور صحرا میں کسی رہرو کو پانی کی تلاش
رات کی ڈھلتی جوانی بدلیوں میں ماہتاب
تنگدستی کی گھٹن سے زخم خوردہ نازنیں
اور پھر حجرے کے اندر مستیاں کارِ ثواب

0
54
لاکھ پردہ کرو چاہے اوجھل رہو میری نظروں سے بچ کر کہاں جاؤ گے
ایسی دیوار اب تک بنی ہی نہیں جسمیں حُسنِ مجسّم چھپا پاؤ گے
اپنے گھر سے نہ یوں بے حجابا چلو کیا عجب راستے میں ملیں شیخ بھی
اک نظر کی اجازت تو ہے شیخ کو کب تلک اپنا دامن بچا پاؤ گے
راستے میں رقیبوں کے گھر آئیں گے یہ بڑے مفسدی ہیں بڑے تند خُو
ہیلو ہائے پہ مجھکو شکایت نہیں بات آگے بڑی تو ستم ڈھاؤ گے

0
63
آج پھر اپنے رقیبوں سے ملاقات کا خوف
اپنے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم ذات کا خوف
ہر کسی بات میں آتے ہیں نشیب اور فراز
باتیں کرتے ہوئے ہر چیز کا ہر بات کا خوف
پھر کہیں تلخ مباحث سے ہو تکرار مزید
گزرے ایاّم سے وابستہ خیالات کا خوف

0
59
ڈھونڈتے رہتے ہو کچھ اُن راستوں کے درمیاں
زندگی بیتی تھی جن پر حسرتوں کے درمیاں
تھک کے آ بیٹھا پرندہ پھر اسی دیوار پر
جس پہ اک عرصہ گزارا دوستوں کے درمیاں
کاش مل جائیں وہ ساتھی دوست ہم راہی کبھی
درد بانٹا کرتے تھے جو عسرتوں کے درمیاں

0
87