| نقشِ کہن سہی پہ مسافر نہیں ہوں مَیں |
| جو کچھ بھی ہوں صد شُکر کہ ظاہر نہیں ہوں مَیں |
| دنیائے حسن و عشق کے ہیں دلربا شہود |
| شاید کسی کسوٹی سے باہر نہیں ہوں مَیں |
| تیرا خیال آتے ہی ہوتا ہوں اشکبار |
| آخر کو اک وجود ہوں پتھّر نہیں ہوں مَیں |
| واقف ہوں شیخ قبلہ سے رِندوں سے بھی سلام |
| صد شکر ہے کسی کا بھی ہمسر نہیں ہوں مَیں |
| توفیقِ ایزدی نے نوازا ہے گام گام |
| لکھتا ہوں ظلم و جبر پہ شاعر نہیں ہوں مَیں |
| آتے ہیں یاد بیتے ہوئے دن مہینے سال |
| آدم کی باقیات ہوں مرمر نہیں ہوں مَیں |
| اک بات اپنے آپ سے کہتا ہوں بار ہا |
| بہتر اگر نہیں ہوں تو بد تر نہیں ہوں مَیں |
| کس کو پڑی ہے جانے کہ مَیں کون ہوں امید |
| اللہ کا التفات ہے رہبر نہیں ہوں مَیں |
معلومات