| جس کا ہر سجدہ درِ یار پہ ناکام رہا |
| جا نماز اس کے لئے کاہے کا انعام رہا |
| عمر جیسی بھی کٹی پردۂ اخفا میں کٹی |
| اب تو واللہ یہ تماشا بھی سرِ عام رہا |
| جب کوئی پوچھتا ہے قِصّۂ انجامِ وفا |
| صاف کہہ دیتا ہوں ہر کام میں ناکام رہا |
| ذِمّے داری سے مزاجاً ہی بُہت دُور رہا |
| دن نکلتے ہی سدا منتظرِ شام رہا |
| زلزلے آئے مگر مجھ کو مددگار پہ واں |
| کوئی یزداں نظر آیا نہ کہیں رام رہا |
| رات کرتی ہوں بسر سیٹھ کے پہلو میں تو کیا |
| بچوں کو پالنا کس دَور میں الزام رہا |
| دل لگی اور ہے کچھ دل کی لگی اور امید |
| کوئی میخانے میں رہ کر بھی تہی جام رہا |
معلومات