| ہر شعر پہ اے دوست مکرّر نہ کہا کر |
| اک بار کہا اس نے تو اک بار سنا کر |
| حوّا نے تو ہر دَور میں آدم کا دیا ساتھ |
| تُو بِنّتِ حوّا ہے کبھی تُو بھی وفا کر |
| ہر بات کی تشہیر مناسب نہیں ہوتی |
| ہر بات کے مضموں کو نیا فہم عطا کر |
| ہو جاتی ہیں انجانے میں ہمدم جو خطائیں |
| وہ رات کو یاد آئیں تو انگلی پہ گنا کر |
| جب ساری دواؤں سے افاقہ نہ ملے تو |
| پھر سجدے میں سر ٹیک کے اللہ سے دعا کر |
| امید غمِ عشق کا دستور عجب ہے |
| جو تجھ سے جفا کرتے ہیں تَو اُن سے وفا کر |
معلومات