| شرارت کی تھی آنکھوں نے سزا پائی مرے دل نے |
| مجھے مبہوت کر ڈالا ترے نینوں کے کاجل نے |
| کناروں سے نکلتی مضطرب موجوں کی جولانی |
| بہت زوروں پہ ہے پانی دیا پیغام ساحل نے |
| بہت سے منزلوں کی جستجو میں عمر بھر بھٹکے |
| بہت تھوڑے ہیں جن کو آ کے خود ڈھونڈا ہے منزل نے |
| ہماری نصرتوں کے نقش ہیں تاریخ پر کندہ |
| نہ الجھے ہم سے یہ دنیا ہمیں پرکھا ہے باطل نے |
| مصائب میں بھی کافی لوگ کُندن بن کے نکلے ہیں |
| یہ مسلم ہیں جنہیں گھیرا ہے لا یعنی مشاغل نے |
| دوائی لینے سے پہلے وہ پہنچی سیٹھ کی کوٹھی |
| بہت مجبور کر ڈالا اسے غربت کی دلدل نے |
| نہ صورت ہی کبھی دیکھی نہ سیرت پر توجّہ دی |
| ہمیں اے زندگی مارا کسی اُبھرے ہوئے تِل نے |
| ملی راحت مصیبت سے تو بعد از مَوت ہی خواجہ |
| کیا احسان مجھ پر قتل کر کے میرے قاتل نے |
معلومات