وفا ملتی نہیں جب تو جفا پر زور آتا ہے
یہ فطرت کا تقاضا ہے جو پھر مونہہ زور آتا ہے
امیروں کا الگ قانون ہے اس دیس میں لوگو
یہاں قانون کی زد میں فقط کمزور آتا ہے
اُدھر تیری محبّت ہے ادھر آٹا نہیں گھر میں
تمہیں ہی چھوڑ دوں دل میں یہی فی الفور آتا ہے
ارادہ ہے کہ اب کے شہریت جنگل کی مِل جائے
ادھر بھی جو نیا آتا ہے آدم خور آتا ہے
نہ چاول ہیں نہ آٹا ہے نہ سبزی ہے نہ دالیں ہیں
نہ جانے کیا چرانے کو مرے گھر چور آتا ہے
کوئی بیمار و درماندہ کوئی حسرت زدہ مفلس
کسی کمرے سے مرنے مارنے کا شور آتا ہے
تغیّر ہے سنا تھا ہاں مگر ہم نے تو دیکھا ہے
غریبی تھی غریبی ہے یہی اک دور آتا ہے
چلو آؤ بھُلا دیں ایک دوجے کو مرے ہمدم
اکیلا مَیں ہوں تنہا تُم یہ حل فِل فور آتا ہے

0
7