| تم جو سننا چاہتے ہو وہ مجھے آتا نہیں |
| کیونکہ سب کے سامنے وہ بات کہہ پاتا نہیں |
| پہلے سارے راستے تھے میرے گھر کے آس پاس |
| اب کسی بھی راستے میں میرا گھر آتا نہیں |
| بھوک کی شِدّت نے تیری یاد کو گہنا دیا |
| عشق سچّا ہی سہی پر روٹیاں کھاتا نہیں |
| اب کسی صحرا میں جانے کی نہیں ہے احتیاج |
| دیکھ کر شہروں کو اب صحرا بھی شرماتا نہیں |
| نہ کوئی اپنا پرایا ہے نہ کوئی یار دوست |
| ایک وہ ہی دلربا تھا وہ بھی اب چاہتا نہیں |
| ساری مخلوقات کا تجھ کو ہے ہر لمحہ خیال |
| تُو ہی ہے بس ایک کوئی اور ان داتا نہیں |
| جانتا ہوں وہ نفیس الطبع ہے پھر بھی امید |
| جتنا ہی بن لوں سنور لوں اُس کو مَیں بھاتا نہیں |
معلومات